لاہور (اے پی پی) لاہور ہائیکورٹ نے لڑکے اور لڑکی دونوں کیلئے شادی کی کم از کم عمر 18سال مقرر کرتے ہوئے شادی کی عمر میں فرق کی شق کو کالعدم قرار دیدیا، عدالت نے 95برس پرانے قانون میں ترمیم کا حکم دیدیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ1929 ء کے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون میں15روز میں تصحیح اور اپ ڈیٹ کرکے قانون پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا کہ بحیثیت قوم آبادی کے آدھے حصے کی صلاحیتوں کو کم عمری کی شادی اور بچوں کی پیدائش میں گنوایا نہیں جا سکتا ،آئین کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں ،کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا ہے،سماجی اور جسمانی عوامل کی بنیاد پر چائلڈ میرج کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،شادی کے قانون کا مقصد سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی عوامل کے ساتھ جڑنا چاہیے ،چائلڈ میرج ایکٹ 1929 ء میں لڑکے لڑکی کی عمر میں فرق امتیازی سلوک ہے،عمر کے اس فرق کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جاتا ہے،خواتین کیلئے مساوی مواقع کا مطلب ہے کہ انکی شادی کیلئے عمر کی حد بھی مردوں کے برابر مقرر کی جائے،آئین کے آرٹیکل 35 کے تحت ریاست شادی، خاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔