ایک اسکول ٹیچر بس میں سوار ہوئی تو کوئی سیٹ خالی نہیں تھی....ایک غریب عورت جو سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اِس نے بڑی عزت کے ساتھ آواز دی، آجائیے میڈم ، آپ یہاں بیٹھ جائیں ، کہتے ہوئے اس نے اپنی سیٹ پر استانی کو بیٹھا دیا اور خود کھڑی ہو گئی۔ میڈم نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اُسے دعائیں دیتے ہوئے کہا میری تو بری حالت تھی۔
یہ سن کراس غریب عورت کے چہرے پر ایک خوش کن مسکان پھیل گئی۔ کچھ دیر بعد استانی کی پاس والی سیٹ خالی ہو گئی، لیکن اس عورت نے ایک اور عورت کو (جو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور مشکل سے بچے کو اٹھا پا رہی تھی) سیٹ پر بیٹھا دیا اگلے اسٹاپ پر وہ عورت بھی اتر گئی ، سیٹ پھر خالی ہوگئی ، لیکن اس نیک دل عورت نے پھر بھی بیٹھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک کمزور اور بزرگ آدمی کو بیٹھا دیا ، جو ابھی ابھی بس میں سوار ہوئے تھے، کچھ دیر کے بعد وہ بزرگ بھی اتر گئے ، سیٹ پھر سے خالی ہو گئی ۔بس میں چند مسافر ہی رہ گئے تھے۔ استانی نے غریب خاتون کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ کتنی بار سیٹ خالی ہوئی لیکن آپ لوگوں کو بٹھاتی رہیں ، خود نہیں بیٹھیں ، کیا بات ہے ؟
اس خاتون نے جواب دیا میڈم میں مزدور ہوں ، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کچھ صدقہ خیرات کر سکوں ، تو میں یہ کرتی ہوں کہ ،کبھی سڑک پر پڑے پتھروں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں ، کبھی کسی پیاسے کو پانی پلا دیتی ہوں، کبھی بس میں کسی کے لیے سیٹ چھوڑ دیتی ہوں ، پھر جب سامنے والا مجھے دعائیں دیتا ہے تو میں اپنی غربت بھول جاتی ہوں، میری دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے اور تو اور جب میں روٹی کھانے کے لیے کسی سڑک کنارے بیٹھتی ہوں، کچھ پرندے میرے قریب آکر بیٹھ جاتے ہیں، میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ان کےسامنے ڈال دیتی ہوں، جب وہ خوشی سے چلاتے ہیں تو خدا کی اس مخلوق کو خوش دیکھ کر میرا پیٹ بھر جاتا ہے، سوچتی ہوں، روپے پیسے نہ سہی ، مفت میں دعا ئیں تو مل ہی جاتی ہیں ، یہ فائدہ ہی ہے نا اور ہمیں دنیا سےکیا لے کر جانا ہے، غریب عورت کی باتیں سن کر۔ استانی ہکا بکا رہ گئیں ، ایک ان پڑھ غریب عورت نےاتنا بڑا سبق انہیں پڑھا دیا۔ اگر دنیا کے آدھے لوگ بھی ایسی خوبصورت اور مثبت سوچ اپنا لیں تو یہ زمین جنت بن جائے گی سب کے لئے، صدقہ و خیرات صرف پیسے سے نہیں دل سے بھی کیا جاتا ہے۔