• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی وی پر بیٹھ کر درس دیا جاتا ہے، عدالتوں کو کیسے چلنا ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (خبر نگار) سپریم کورٹ نے صحافیوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے سے متعلق کیس میں پولیس تفتیش کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے تفتیش کیلئے اہل افسر تعینات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے ، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا ، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے ، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے ، گالیاں دینا ہو تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے مگر سچ کوئی نہیں بولتا ، غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا ، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے ، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں ، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں ، کسی کے کوئی ذرائع نہیں ، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں ، ہم محفوظ پاکستان چاہتے ہیں۔۔ عدالت نے صحافی ابصار عالم، مطیع اللہ جان اور اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ صحافیوں پر تشدد کرنے والے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کر کے گرفتاری کیلئے انعامی رقم مقرر کی جائے۔ عدالت نے صحافیوں پر تشدد اور اغوا کی فوٹیج پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوانے کی بھی ہدایت کی گزشتہ روز سماعت شروع ہوئی تو چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزا راجہ شیر بلال ، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی نے آپکے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کئے؟ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟
اہم خبریں سے مزید