پشاور(کرائم رپورٹر)کیپٹل سٹی پولیس نے 10روزقبل تھانہ سربند کے علاقے سے اغواء ہونے والے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال پشاورکے ڈاکٹر کوبحفاظت بازیاب کراتے ہوئے اغواءکار گینگ کو بے نقاب کر دیا،گینگ کا سرغنہ افغان باشندہ ہے جو واکی ٹاکی وائرلیس کا استعمال کرتے تھے اور اغواءکے بعد مغوی ڈاکٹر کو متنی پاسنی کے علاقے میں زیرتعمیر مکان میں قید رکھا ۔ملک سعد شہید پولیس لائنز میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن سجاد احمد صاحبزادہ نے ایس پی کینٹ اعتزازعارف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ 4ستمبر کونجی ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر فقیراللہ کے بیٹے ڈاکٹر یوسف، جو ان کا واحد بیٹا ہے، کو نامعلوم اغواءکاروں نے اچینی روڈ سے اغواءکر لیا تھا اور مختلف نمبرز سے کال کرکے ان سے 5کروڑ کا تقاضا کرتے رہے جبکہ ہر کال کے بعد سم بند کردیتے تھے ۔ مغوی ڈاکٹر کی بازیابی کیلئے پولیس کی ٹیم تشکیل دی گئی جبکہ سی ٹی ڈی پولیس سے بھی رابطہ کیا گیا ۔انہوں نے بتایاکہ یہ کیس ان کیلئے ایک چیلنج تھا کیونکہ پولیس کے پاس کوئی شواہد موجود نہیں تھے تاہم جیوفینسنگ اور جدید خطوط پر تفتیش کے ذریعے وہ اغواءکاروں تک پہنچے اور انہوں نے ضلع خیبر میں بھی چھاپے مارے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے مزید کہاکہ اغواء میں گینگ کا سرغنہ حکمت ولد عزت خان سکنہ افغانستان اور اسد علی ولد محبت خان سکنہ سنگو سربند سمیت دیگر ملزمان ملوث ہیں۔ حکمت ماسٹر مائنڈ تھا اورکارخانوں کا رہائشی ہے جو جرائم پیشہ ہے جس نے کارخانوں سے واکی ٹاکی وائرلیس خریدی جبکہ کارخانوں ہی میں ایک نشئی وصال ساکن مردان سے 1000روپے کے عوض موبائل فون سم خریدی جو اس نے واردات کیلئے استعمال کی۔ انہوں نے بتایاکہ اسد نے سہولت کاری کا کام کیا اور واردات کیلئے گاڑی فراہم کی، یہ پورا ایک گینگ ہے جس میں انفارمر اور ریسیور سمیت دیگر کارندے شامل ہیں جن سے اسلحہ وگاڑی برآمد کرلی گئی۔ انہوں نے بتایاکہ بازیاب ہونے والے ڈاکٹر کو جنوری میں شادی کے بعد کالعدم تنظیم کے نام پر بھتے کیلئے ایک بارکال بھی موصول ہوئی تھی تاہم یہ ملزمان مقامی اغواءکار گروہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے ایف آئی آر میں اغواء برائے تاوان اور انسداد دہشتگردی کی دفعہ بھی شامل کرینگے۔ایک سوال کے جواب میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن سجاد احمد نے کہاکہ غلط دعویداری سے کیس خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساراملبہ پولیس تفتیش پر ڈالاجاتا ہے۔ بعض اوقات فریقین میں صلح یا جرگے بھی ہوتے ہیں۔ پولیس ایمانداری اور دل سے کام کرتے ہیں تو لوگ بھی عزت کرتے ہیں۔ بازیاب ڈاکٹر کے والد ڈاکٹر فقیراللہ نے پولیس افسران کی کاوشوں کو سراہا اورکہاکہ انہوں نے بیٹے کی بازیابی کیلئے کوئی رقم نہیں دی اور انکے بیٹے کو بحفاظت بازیاب کرایا گیا۔