• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر میں کالے قانون کے نفاذ کی بازگشت

گریٹر مانچسٹر کی ڈائری… ابرار حسین
آزاد کشمیر میں ایک کالے قانون کے نفاذ کی بازگشت برطانیہ کی کشمیری کمیونٹی میں بھی سنائی دی ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پینل کوڈ 1860 کی سیکشن 505میں ترمیم کے ذریعے سرکار پر تنقید کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا جاے گا اور جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا سات سال قید مقرر کی گئی ہے۔صدر، وزیراعظم، وزرا، سرکاری افسران اور دیگر شخصیات پر تنقید کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج ہو سکیں گے۔ پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں صدر، وزیر اعظم پر تنقید پر سزائیں دینے کے قانون پر کمیونٹی کے شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں ۔ صحافی، وکلا اور سول سوسائٹی نے اس ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’آزادی اظہارِ رائے پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ کئی مہینوں سے ’ڈی فیمیشن ایکٹ‘ کے بارے میں خبریں گردش میں تھیں۔ا یک بار اس قانون کے مسودے کو کشمیر اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی گئی، جس پر اسمبلی میں موجود صحافیوں نے شدید احتجاج اور بائیکاٹ کیا۔صحافیوں کے احتجاج کے بعد اس ایکٹ کو روک دیا گیا اور تحفظات دور کرنے اور اس ایکٹ پر مشاورت کے لیے وزیر قانون کشمیر میاں عبدالوحید اور رکن اسمبلی احمد رضا قادری پر مشتمل ایک کمیٹی نے صحافیوں سے بات چیت کی۔ اس بات چیت کے کئی ادوار ہوئے، جن میں یہ طے پایا کہ ’ڈی فیمیشن ایکٹ‘ صحافیوں کی تجاویز لے کر ان کی مشاورت سے پیش کیا جائے گا اور اسے پاس کرنے سے پہلے صحافیوں کی مکمل رضامندی حاصل کی جائے گی لیکن گذشتہ دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس ایکٹ پر کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی۔ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے چند روز قبل منعقد ہونے والے اجلاس میں حکومت کی جانب سے ایک ایکٹ پر کوئی بھی بحث کرنے کی بجائے پینل کوڈ میں پہلی ترمیم کا آرڈیننس 2024پیش کیا گیا، جسے حتمی منظوری سے قبل مجلس منتخبہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مجلس منتخبہ وزیر قانون کشمیر میاں عبدالوحید، سینیئر وزیر کرنل وقار نور، وزیر مواصلات اظہر صادق اور قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق پر مشتمل تھی، جس نے تجویز کردہ ترمیم پر اتفاق کرتے ہوئے اسے ایوان کے سپرد کیا اور اس ترمیم کو منظور کرنے کی تحریک کی گئی، جس کے بعد ایوان نے اس ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر کشمیر کی حکومت پر مختلف مکتبہ فکر بالخصوص صحافیوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ایک میڈیا انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق اس حوالے سے سینٹرل بار کشمیر کے صدر ناصر مسعود سے بات کی گئی ہے ، جن کا کہنا تھا کہ یہ قانون کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ کچھ نہیں۔ آزاد کشمیر کے ایک مقامی اخبار نے بھی اسے نمایاں چھاپا ہے آزاد کشمیر میں ایسا نیا کالا قانون لاگو کرنے کا مقصد دراصل حکومتی سطح پر پائی جانے والی کرپشن بد عنوانی رشوت ظلم و ناانصافی معاشی بد حالی مہنگائی اور بیروزگاری کو چھپانا ہے جو اپنی انتہا کو پینچ چکی ہے جس سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے جبکہ گزشتہ 78 برسوں سے ہر آنے والی حکومتی اہلکاروں کے غیر زمہ دارانہ رویے کی بناپر بعض سرکاری ادارے اس مقام تک پینچ چکے ہیں کہ عوام ان پر اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں ایسے ادارے اس وجہ سے ہی بد نام ہو چکے ہیں چاہے تو یہ تھا کہ ہر ایک ادارہ امن کا گہوارہ عوام کے تحفظ کا ضامن ہونا چاہے مگر بد قسمتی سے موجودہ صورتحال بھی یہی منظر نامہ پیش کر رہی ہے جہاں کسی کی جان و مال اور عزت تک محفوظ نہیں ایسا لگتا ہے کہ تمام معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور ہر آدمی ان حالات سے تنگ آکر ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے ایک اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ساڑھے سات لاکھ سے زائد پاکستانی کشمیری ملک چھوڑ چکے ہیں اور اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران دو لاکھ مذید پاکستانی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں اور ان اعداد وشمار میں اعلی تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد جن میں ڈاکٹر ا نجینئر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور اکاوٹننٹ شامل ہیں جو برطانیہ یورپ اور متحدہ امارات کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ملک کے تمام ادارے خوف کی علامت اور ریاستی تشدید کا مرکز بن چکے ہیں جس سے ہر غریب اورکمزور شخص ذہنی اور نفسیاتی طور پر خوفزدہ نظر اتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحافی ان حالات کو دیکھتے ہوے حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور وہ تنقید حکومت کو برداشت نہیں ہوتی حکومت کی یہی مرضی ہے کہ صحافی سب اچھا کی رپورٹ دیں تاکہ ان کی غیر مناسب کارکردگی پر حرف نہ آ ئے اور ایسے قانون بناکر سچ لکھنے والے صحافیوں کا راستہ روکا جا رہا ہے اور ایسے قوانین بناے جا رہے ہیں کہ چلی ہے رسم کہ کو ئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ اگر ایسے قوانین بناے گیے تو پھر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے تاریخ کے بد ترین مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں کو جس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت شاید وہی تاریخ یہاں بھی دہرانے جا رہی ہے برطانیہ سمیت د نیابھر میں آباد تمام کشمیریوں پاکستانیوں کو چا ہئے کہ وہ برطانیہ کا دورہ کرنے والے تمام وزیروں مشیروں کے ساتھ اس مسلے پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کریں تاکہ آزاد کشمیر میں حکومتی سطح پر پینل کوڈ 1860کی سیکشن 505 ترمیم کو روکا جا سکے۔
یورپ سے سے مزید