• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی اصلاحات، عدلیہ نے ناکام بنائیں، جیسے مسودہ ججز کے علم میں آیا تو سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر فیصلہ آگیا، بلاول

کراچی، اسلام آباد (ٹی وی رپورٹ ، ایجنسیاں) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات عدلیہ نے ناکام بنائی، جیسے ہی عدلیہ اصلاحات ججز کے علم میں آئی، سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر فیصلہ آگیا، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ عدالتی اصلاحات میں براہ راست مداخلت تھی، ہمارے نمبر پورے تھے،فیصلہ دیکر کم کیے گئے، عدلیہ نے جو کیا اس کی ٹائمنگ پر بات کیوں نہیں ہو رہی ، 25اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں آمنے سامنے کی صورتحال ہوسکتی ہے، ترامیم نہ ہوئیں تو پھر شاید حالات کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں، جب بات عدالت کی طاقت کم کرنے کی آئی تو عدلیہ کا ادارہ اکٹھا ہو گیا، ملٹری کورٹس کا مطالبہ عدلیہ پر عدم اعتمادہے، میثاق جمہوریت کا اہم نکتہ عدالتی اصلاحات تھا۔ 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو اور اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ ملٹری کورٹس کی مخالف رہی ہے لیکن یہ مطالبہ آتا ہی کیوں ہے دہشت گردی کے کیسز کیوں نہیں نمٹتے، ملٹری کورٹس کا مطالبہ آتا ہے تو یہ ہماری عدلیہ پر عدم اعتماد ہے، دہشت گردی کے ایشوز کو عدالتی اصلاحات سے الگ رکھنا چاہتا ہوں ، میثاق جمہوریت کا سب سے اہم نکتہ عدالتی اصلاحات ہیں ،وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ عدالتی اصلاحات لا رہے ہیں اسکے بعد سیاسی کیس شروع کر دئیے گئے۔مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی آیا ۔

 اتوار کو نمبر پورے ہو رہے تھے ہفتے کو سپریم کورٹ کا حکمنامہ آیا اور ہمارے نمبرز جو پورے تھے کم کر دیئے گئے۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ اس وقت ہم نہیں اپوزیشن شخصیات سے متعلق سوچ رہی ہے کسی شخص کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتا لیکن ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ کسی شخص کیخلاف قانون سازی کروں، میثاق جمہوریت کا سب سے اہم نکتہ عدالتی اصلاحات ہیں۔ آئینی ترامیم جس انداز سے پیش ہوئیں اس سے بہتر طریقے سے پیش ہوسکتی تھیں۔اچھا ہوتا حکومت پہلے پیپلزپارٹی سے عدلیہ میں اصلاحات پر بات کرتی۔ 

ملٹری کورٹس میرے منشور میں نہیں ہے، ہماری کوشش ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اس پیج پر آئیں اور مولانا کے ساتھ کچھ لین دین ہوگا تو پھر ہم ایسی ترمیم لاسکتے ہیں جو میرے منشور کے ٹارگٹ حاصل ہونگے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشت گردی کے ایشوز کو عدالتی اصلاحات سے الگ رکھنا چاہتا ہوں ۔ دہشت گردی کے مسئلے سے متعلق ایک جامع پلان مل کر بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیں دوبارہ پاور میں لے کر آئے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل قبول نہیں ہے۔ 

عمران خان نیب کے ادارے کی تعریف کرتے رہے ہیں اور اُن کا کہنا یہ بھی تھا کہ اگر وہ کچھ غلط کریں تو انہیں جیل جانا چاہیے اور نیب تو اچھا ادارہ ہے وہ احتساب کرتا ہے۔ جبکہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ سیاستدانوں کو جیل نہیں جانا چاہیے۔

 بانی پی ٹی آئی نہیں چاہتے کہ وہ جیل جائیں تو آئیں چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ بنیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہ چارٹر آف ڈیموکریسی کو مک مکا سمجھتے تھے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور مسائل کے حل کے لیے کام کرے۔

بلاول بھٹوزرداری نے کہاہے کہ 25اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی البتہ اس سے قبل ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی اور اگر عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لانا ہو گا‘آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شاید کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں‘ترامیم کو میں لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا،مولانا کی خواہش ہے پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لیا جائے‘ہم سے مخصوص نشستیں چھن گئیں ‘شاید اسی لئے اس بار ترامیم کو خفیہ رکھا گیا‘ نوے کی دہائی میں ہم وکیل کرتے تھے ن لیگ جج کرتی تھی۔

سیاستدان واپس سیاست کے دائرے میں آئیں۔کون بنے گا وزیر اعظم کا کھیل ختم کریں ۔ کون آرمی چیف بنے گا کون نہیں یہ کھیل بھی ختم ہو۔پولرائزیشن اتنی بڑھ چکی کہ کہا جاتا ہے جو خان کے ساتھ ہے بس وہی ٹھیک ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے رپورٹرز سے غیر رسمی گفتگو کی، اس دوران ان سے صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ عمران خان کے ملٹری ٹرائل کے حق میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی تو دیکھنا ہے کہ شواہد کیا ہیں، ویسے بھی صدارتی معافی کا اختیار ہمارے پاس ہے‘ پیپلز پارٹی سزائے موت کے خلاف ہے۔

اہم خبریں سے مزید