کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک ‘‘میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی تحریک انصاف سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کا بیٹھنا خوش آئند ہے۔
مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ادارے کو اکٹھے رہ کر کام کرنا چاہیے،ہم نے کسی جج کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا، میزبان حامد میر نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے ستائیسویں آئینی ترمیم سے متعلق متضاد خبریں آرہی ہیں ۔
رکن قومی اسمبلی تحریک انصاف سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک بات خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھے ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس کا پولرائزیشن میں بڑا کردار رہا ہے پہلی چیز جو تمام ججز کودیکھنا بھی چاہیے کہ کیا چھبیسویں ترمیم آئین کی روح کو مجروح تو نہیں کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کا ستون ختم تو نہیں ہوگیا ہے۔
مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 239 میں واضح لکھا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم پر کورٹ آف لاء میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ۔اگر بنیادی اسٹریکچر کے خلاف کوئی چیز جارہی ہے جبکہ چھبیسویں آئینی ترمیم نہیں ہے ۔
چھبیسویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں آئی ضرور ہیں لیکن یہ دو تہائی سے پاس ہوئی ہے اور ملک کے آئین میں باقاعدہ طور پر آچکی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان اسی ترمیم کی وجہ سے حلف بھی لے لیا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام تر ججز اکٹھے ہوئے ہیں۔ہم نے کسی جج کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا ۔
ایک عمومی اصول ہے کہ کوئی جونیئر سپر سیڈ آپ کو کر جاتے ہیں عام فہم میں یہ بات ہے کہ لوگ دے دیتے ہیں لاہور ہائیکورٹ کی مثال موجود ہے جب تیسرے چوتھے نمبر کے جج کو چیف جسٹس بنایا تو اوپر والے جو تھے وہ مل جل کر کام کر رہے ہیں۔
جسٹس منصور کا ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرنا خو ش آئند ہے ادارے کو اکٹھے رہ کر کام کرنا چاہیے۔
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کا سینیٹ مکمل نہیں ہے اور ہمیں مخصوص نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود نہیں دی گئی ہیں قومی اسمبلی بھی مکمل نہیں ہے پہلے ہاؤس تو مکمل کرلیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم سے متعلق یہ بھول جائیں کہ وہ آسکتی ہے ۔
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ہمارا معاہدہ لوکل باڈیز کو مستحکم کرنے سے متعلق تھا یہی کہا گیا کہ اس ترمیم میں نہ صحیح اگلی آئینی ترمیم اس سے متعلق کرلیں ہمارا 140 اے کا مطالبہ ہے دوسرا صوبوں کے حقوق کے حوالے سے دیکھنا ہے ۔
اپوزیشن کی طرف سے غلط تاثر دیا جارہا ہے کہ شاید فوجی عدالتوں کا قیام ہوگاایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں وکیل پہلے ہوں سیاستدان بعد میں ہوں میں ایمان مزاری کی گرفتاری افسوسناک ہے میں مذمت کرتا ہوں ۔
سینیٹر مشتاق احمد کا احتجاج تھا اگر اجازت نہیں لی تو قانون بن گیا اور ان پر جو مقدمہ بنایا گیا دہشت گردی کا اس کی مذمت کرتا ہوں۔