کہا جاتا ہے کہ کھجور کی کوئی چيز ضائع نہیں ہوتی، اِس کے تنے ديہات ميں بطور ستون کام آتے ہیں، اس کے پتے پنکھا جھلنے اور چٹائی بنانے کے کام آتے ہیں جبکہ اِس کی گٹھلی بطور چھاليہ بھی استعمال کی جاتی ہے۔
صوبۂ سندھ کے تيسرے بڑے شہر سکھر ميں ايشياء کی سب سے بڑی کھجور مارکيٹ قائم ہے، اس علاقے میں 40 سے زائد اقسام کی کھجوروں کے درخت ہیں۔
جڑواں شہر سکھر اور خیرپور میں مجموعی طور پر کھجور کے 2 کروڑ درخت ہیں جہاں سالانہ لگ بھگ ڈھائی لاکھ ٹن کھجور کی پیداوار ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دونوں شہروں میں تقریبًا 2 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھجور کے باغات ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ خیرپور اور 50 ہزار ایکڑ ضلع سکھر میں موجود ہیں۔
یہاں سے اربوں روپے مالیت کا چھوہارا اور کھجور ہر سال بیرونی ممالک کو برآمد کر کے بھاری زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
یہاں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مختلف اقسام میں اصیل، کربلائی، کبڑا، خرما، مٹھڑی، ہوا والی، کاچھو والی، گھومڑا، گجرالی، نونی، میہوا والی سمیت دیگر اقسام شامل ہیں۔
ان میں 80 سے 90 فیصد کھجور سے چھوہارا بنایا جاتا ہے، جس میں سے بڑی مقدار دبئی سمیت دیگر ممالک برآمد کر دی جاتی ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر بھورے رنگ کا چھوہارا استعمال ہوتا ہے جبکہ پیلا چھوہارا بیرونِ ملک بھیجا جاتا ہے۔
کھجوروں سے چھوہارا بنانے میں کافی محنت لگتی ہے، کھجوروں کو ان کے گچھوں سے الگ کرنے کے بعد پانی کے ٹب میں ڈال کر دھویا جاتا ہے جس کے بعد آگ کی بھٹی پر ابلتے ہوئے پانی کے کڑھاؤ میں ڈالا جاتا ہے اور اس میں نمکیات، کھانے کا رنگ ڈال کر کھجوروں کو پکایا جاتا ہے۔
جب یہ کھجوریں پک کر چھوہارے کی شکل اختیار کرتی ہیں تو انہیں کھلے آسمان تلے دھوپ میں ڈال کر خشک کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، اگر دھوپ زیادہ تیز ہو تو یہ چھوہارے 4 سے 5 دن میں تیار ہو جاتے ہیں اور اگر دھوپ تیز نہ ہو تو چھوہاروں کو خشک ہونے میں 6 سے 7 دن بھی لگ جاتے ہیں۔
خشک ہونے کے بعد ان چھوہاروں کو بوریوں میں بھر کر منڈیوں میں لے جایا جاتا ہے۔
کھجور کی پیداوار ہر سال شدید گرمیوں میں ہوتی ہے جب سکھر اور خیرپور میں درجۂ حرارت 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہوتا ہے۔
کھجور سے چھوہارا بنانے کا سیزن 20 جولائی سے 20 اگست کے دوران ہوتا ہے، کھجور کو سکھانے کے لیے تیز دھوپ درکار ہوتی ہے، بارشوں کے موسم میں دھوپ نہ نکلنے کی صورت میں چھوہارا جلدی نہیں سوکھتا جس سے اس کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
سکھر کی ’نمکین کھجور‘ بھی کافی مشہور ہے جو ایک مخصوص نسل کے درخت پر پائی جاتی ہے اور سائز میں عام کھجور سے بڑی ہوتی ہے، جسے ’گاجر‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ کھجوریں قدرتی طور پر اتنی نمکین نہیں ہوتیں، نمکین بنانے کے لیے انہیں خوشوں سے الگ کرنے کے بعد اس میں نمک ڈالا جاتا ہے، پھر کافی دیر الٹنے پلٹنے کے بعد اسے 12 گھنٹوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، تیار ہونے کے بعد یہ کھجور 24 گھنٹے تک کارآمد رہتی ہے، جس کے بعد اس میں کھٹاس پیدا ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار ساڑھے 6 لاکھ ٹن سے بھی تجاوز کر گئی ہے، برآمدی کھجور کی رقم 26 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر پچھلے 2 سال میں 50 کروڑ ڈالرز سے اوپر جا پہنچی ہے اور اس میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔
اگر کھجور کی پیکنگ، پالشنگ، پراسیسنگ کے نظام کو بہتر بنا لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 100کروڑ ڈالرز کی کھجور بیرونِ ملک برآمد کر کے قیمتی زرِمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کھجور کی فصل کو ’سونے کی فصل‘ بھی کہا جاتا ہے جس میں پاکستان کو قیمتی زرِمبادلہ سے مالا مال کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔