اسلام آباد / لاہور( جنگ نیوز / نمائندہ جنگ ) سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ادھر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور نے کہا کہ سالہا سال کیسز چلنے پر لوگ تنگ آچکے، مصالحتی نظام کیلئے ٹریننگ دے رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ مصالحت 2گھنٹوں میں بھی ہوسکتی ہے ۔ جسٹس تنویز اور جسٹس عاصم نے بھی خطاب کیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا ہے۔خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ چیف جسٹس نے کہا وہ چار رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے، رات نو بج کر33 منٹ پر میرے سیکرٹری کا واٹس ایپ میسج آیا، سیکرٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا، میں نے سیکرٹری کو بتایا کہ مجھے اس پراعتراض ہے، صبح جواب دوں گا، رات 10 بج کر 28 منٹ پر سیکرٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیکرٹری نے بتایا کہ روسٹر بھی جاری کر دیا گیا ہے، میرا بینچ پر دو ممبران کی حد تک اعتراض ہے، بینچز اختیارات کا کیس ہم سے واپس لینے کا فیصلہ دونوں کمیٹیوں نے کیا، کمیٹیوں میں شامل ججز کے فیصلے پر ہی سوالات ہیں۔ادھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ لوگ سالہا سال کیس چلنے سے تنگ آچکے،مصالحتی نظام کیلئے ٹریننگ جاری ہے،کچھ ہماری،زیادہ تر وکلاءکی وجہ سے مسائل ہیں،ہڑتال وغیرہ کے باعث مقدمات لٹک جاتے ہیں،لاہور ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام مصالحتی کانفرنس کا انعقاد ہوا،شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مزیدکہا کہ مصالحتی نظام ہمارے کلچر کے مطابق ہے جو مسائل کو اچھے طریقے سے حل کر سکتا ہے،اس نظام سے معاشرتی مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے،اس نظام کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں،ہم لوگوں کو ٹریننگ کرا رہے ہیں جو احسن طریقے سے مصالحت کرائیں گے،انہوں نے کہا کہ 2023 میں پورے پاکستان میں 17 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا،ہمارےکیسز آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں،ہمیں سائلین کے لیے راستہ نکالنا پڑے گا،ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متبادل طریقے اپنانے پڑیں گے، اس وقت 10 لاکھ لوگوں کے لئے صرف 13 جج ہیں،ججوں کی تعداد بہت کم ہے،موجودہ عدالتی نظام کے اپنے مسائل ہیں،زیادہ تر مسائل وکلا کی وجہ سے ہیں ہماری وجہ سے بھی ہیں۔