کراچی( ثاقب صغیر )سال 2025میں ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں تشدد کی شدت اور ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کئی اہم اشاریئے گزشتہ کئی برسوں کی بلند ترین سطحوں پر پہنچ گئے۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کی رپورٹ کے مطابق 2025 نہ صرف مجموعی طور پر جنگی ہلاکتوں میں بڑے اضافے کا سال ثابت ہوا بلکہ 2015کے بعد عسکریت پسندوں کے لیے سب سے زیادہ جان لیوا سال، 2011کے بعد سیکیورٹی فورسز کے لیے سب سے مہلک سال اور 2015کے بعد عام شہریوں کے لیے بھی سب سے خونریز سال رہا۔ اسی دوران دہشت گرد حملوں کی تعداد 2014کے بعد بلند ترین سطح پر جا پہنچی جب کہ خودکش حملوں اور ڈرونز (خصوصاً کواڈ کاپٹرز) کے استعمال میں بھی واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔پی آئی سی ایس ایس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2025میں جنگ سے متعلق ہلاکتوں کی تعداد 73فیصد بڑھ کر3,387تک جا پہنچی جو 2024میں1,950تھی۔ ان ہلاکتوں میں2,115 عسکریت پسند، 664سیکیورٹی فورسز کے اہلکار، 580عام شہری اور حکومت حامی امن کمیٹیوں کے 28اراکین شامل تھے۔ مجموعی ہلاکتوں میں عسکریت پسندوں کا حصہ تقریباً 62فیصد رہا۔ عسکریت پسندوں کی 2,115 ہلاکتیں 2015کے بعد سب سے زیادہ تھیں جب 2,322عسکریت پسند مارے گئے تھے۔ 2024کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں میں 122فیصد اضافہ ہوا (2024میں 951تھے)۔ رپورٹ کے مطابق یہ سال پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے لیے بھی نہایت خونریز ثابت ہوا۔2025میں664اہلکار شہید ہوئے جو 2024 کے 528کے مقابلے میں 26فیصد زیادہ اور 2011کے بعد سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے جب 677اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی 24 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 2025میں 580رہی جبکہ 2024میں 468تھی۔ یہ 2015کے بعد شہریوں کی سب سے زیادہ سالانہ ہلاکتیں ہیں جب 642شہری مارے گئے تھے۔زخمیوں2025کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق 2025 میں کل 2,263افراد زخمی ہوئے جن میں 1,025 سیکیورٹی اہلکار،982عام شہری، 228عسکریت پسند اور 28 امن کمیٹی کے ارکان شامل تھے۔ یہ 2024 کے مقابلے میں 53 فیصد اضافہ ہے اور 2014 کے بعد سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے جب 3,829 افراد زخمی ہوئے تھے۔ 2024 کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کے زخمیوں میں 62 فیصد اضافہ (1,025 بمقابلہ 631)، عام شہریوں میں 40 فیصد اضافہ (982 بمقابلہ 701) اور عسکریت پسندوں میں 61 فیصد اضافہ (228 بمقابلہ 142) ریکارڈ کیا گیا۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق 2025 میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی گرفتاریوں میں بھی 83 فیصد اضافہ ہوا جو 2024 میں 272 سے بڑھ کر 497 تک پہنچ گئی۔ یہ 2017 کے بعد سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے جب 1,781 عسکریت پسند یا تو گرفتار ہوئے یا ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اغوا کی وارداتوں میں بھی 162 فیصد اضافہ ہوا۔ 2024 میں 82 کے مقابلے میں 2025 میں 215 افراد کو اغوا کیا گیا۔ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق اغوا کی یہ سالانہ تعداد 2012 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔آپریشنل محاذ پر بھی عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا۔ 2025 میں کم از کم 1,063 عسکریت پسندانہ حملے ریکارڈ کیے گئے جو 2024 کے 908 کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ 2014 کے بعد حملوں کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے جب 1,609 حملے ریکارڈ ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق خودکش حملوں میں 53 فیصد اضافہ ہوا، 2024 میں 17 کے مقابلے میں 2025 میں 26 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پی آئی سی ایس ایس نے نشاندہی کی کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے چھوٹے ڈرونز (جیسے کواد کاپٹرز) کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا جن کے 33 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی بغیر پائلٹ فضائی نگرانی جے استعمال میں توسیع دیکھی گئی۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق زیادہ تر تشدد کا مرکز خیبر پختونخوا کے پشتون اکثریتی اضلاع، بشمول سابق قبائلی اضلاع (فاٹا)اور بلوچستان رہا۔