اسلام آباد(ایجنسیاں)جسٹس بابرستار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے تین ججوں سے متعلق اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خط لکھ دیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے 3ججوں کے معاملے چیف جسٹس عامر فاروق کو 6صفحات پر مشتمل خط لکھ دیاجس میں کہاگیاہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججوں نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا‘حلف کےبغیرتینوں ججز کوانتظامی کمیٹی میں رکھنا غیر قانونی ہے‘بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی ۔ جسٹس بابر ستار نے ٹرانسفر ججوں کی سنیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اورہائی کورٹ انتظامی کمیٹی میں تبدیلی کو بھی غیر قانونی کہہ دیا ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ سنیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹیفکیشن واپس لیے جائیں ۔جسٹس بابرستار نے کہا کہ سنیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے‘خط میں کہا گیا کہ ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججوں نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کی زیر نگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194کی خلاف ورزی میں بغیر حلف 3فروری سے جوڈیشل کام شروع کر چکے ہیں۔بغیر حلف ججوں سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا ان کے لیے بعد میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ جسٹس بابرستار نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز2011کی خلاف ورزی ہے، اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے مطابق ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور دو ججوں پر مشتمل ہو گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے خط میں رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس لحاظ سے 9ویں نمبر کے جج جسٹس خالد سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے، بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے دو ججوں کو شامل کر لیا گیا جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ابھی انتظامی کوئی تجربہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تین دن پہلے ان کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ساتھ ہی کمیٹی میں شامل بھی کر لیا گیا۔