تحریر: مولانا حسن ظفر نقوی یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔( سورئہ بقرہ،آیت ۱۸۳) ویسے تو ماہ مبارک رمضان اور روزے کے فضائل اتنے ہیں کہ دفتر کے دفتر ان فضائل سے بھرے جا سکتے ہیں لیکن ہم یہاں محدود اور مختصر تحریر کی شرط کے ساتھ روزے کے صرف ایک اثر یا نتیجے پر گفتگو کریں گے اور وہ ہے ’’تقویٰ‘‘۔ مذکورہ آیت میں بھی تقویٰ کو روزے کے نتیجے کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ذرا سا بھی غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ در حقیقت تقویٰ ہی روزے کا وہ حاصل ہے جو باقی تمام صفات حسنہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم قرآن مجید میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ قادر مطلق نے اپنے خطاب کے مخاطب مختلف گروہ قرار دئے ہیں۔ کبھی ’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے، کبھی ’’یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ‘‘اور کبھی ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ اور ان تینوں مذکورہ بالا مرحلوں میں انسان کو تخلیق کائنات میں غور وفکر کی دعوت دی گئ ہے، پھر خود انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اسی انسان کو اوامر اور نواھی کا مرکز اور محور قرار دیا ہے، یعنی۸۹ مقامات پر ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘کہہ کر یا تو کسی فعل کے انجام دینے کا حکم ہے یا پھر کچھ کاموں کے انجام نہ دینے اور ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک مقام پر بھی’’ متقین ‘‘کو کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ جب بھی ’’متقین ‘‘کا ذکر آیا ہے ان کی تعریف ، ان کے بلند مقام اور ان کے بہترین انجام کے ساتھ آیا ہے۔ یعنی تقوائے الٰہی اسی وقت حاصل ہوتا ہے اور ایک مومن متقی کے درجے پر اسی وقت فائز ہوتا ہے جب وہ انسانیت، اسلام اور ایمان کے تمام مراحل کو طے کر لیتا ہے۔ اسی لئے مومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ: ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُو اللّٰہَ‘‘ ایمان والو !تقوائے الٰہی کی طرف بڑھو۔(سورہ مائدہ،آیت ۳۵) تقوائے الہی حاصل کرنے میں اور متقی بننے کی منزل تک پہنچنے میں قرآن مجید نے اہم ترین وسیلہ روزے کو قرار دیا ہے کیونکہ ایک کامل روزہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنے شکم کو بھوک اور پیاس کی آزمائش میں نہیں ڈالتا بلکہ انسان کے جسم کا ہر عضو روزے کی شرائط پوری کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ روزہ صرف یہ نہیں کہ فجر کا وقت شروع ہونےسے پہلے سے لے کر رات شروع ہونے تک روزے کی حالت میں انسان بھوک اور پیاس کی حالت میں بسر کر لے ، بلکہ کامل روزے کے لئے ضروری ہے کہ آنکھ، کان، زبان ، ہاتھ پیر، حتی کہ دل و دماغ کو بھی ہر ایسے فعل سے روکنا ہے جس میں معصیت کا پہلو ہو۔ بس جب ایک مومن پورے ایک ماہ تک اس کیفیت کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو وہ اپنے نفس امارہ پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے، اور یہی وہ تقویٰ ہے جو روزے کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ اور جس کا مذکورہ آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کروڑوں لوگ روزہ رکھ رہے ہیں۔ چینلز صبح سے شام تک رمضان المبارک کے پروگرام نشر کر رہے ہیں،مگر تقویٰ کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔وہی بے ایمانی ، ناجائز منافع خوری، ظلم و زیادتی ، جھوٹ۔ مکر و فریب، اس کا سبب یہی ہے کہ روزہ تو ہے مگر صرف پیٹ کا ہے۔ باقی آپ دیکھ لیجئے کہ چینلز پر کس قسم کے واہیات پروگرام جاری رہتے ہیں، اداکار اور اداکارائیں اسلام پڑھا رہے ہوتے ہیں، معذرت کے ساتھ علماء کرام ماڈلز کے ساتھ با رضا و رغبت پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور مذہبی پروگرام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں عید کا چاند نظر آتے ہی جس طرح شیطان کو راضی کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں الامان و الحفیظ۔ ہمارے بازاروں میں رمضان کے دوران مہنگائی اور منافع خوری کا جو طوفان آتا ہے وہ غریب آدمی کے لئے ایک عذاب بن جاتا ہے، یعنی وہ ماہ مبارک جو رحمت ہی رحمت ہے اور مغفرت کا ذریعہ ہے ، یہ مسلمان اسی ماہ مبارک میں باقی گیارہ مہینوں سے زیادہ منفی رویے کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اور وہ جو حاصل روزہ ہے ، نتیجہ ہے، انعام ہے اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی لئے آیت میں’’لَعَلَّکُمْ‘‘ کے ساتھ نتیجے کا ذکر کیا گیا ہے ، ’’لَعَلَّکُمْ‘‘کے جو معنی بیان کئے گئے ہیں ، ’’شاید تم‘‘ ہو سکتا ہے کہ تم، ممکن ہے کے تم ، تا کہ تم ‘‘ ۔ خلاصہ یہ کہ ’’روزہ رکھو تا کہ تم تقوائے الٰہی تک پہنچ سکو‘‘۔بس ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ روزہ اسی طرح رکھا جائے جیسے ہمارا اللہ چاہتا ہے اگر روزے کی تمام شرائط کو پورا کیا جائے تو پھر ایک مومن بندہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اللہ اسے اپنے کلام میں متقی کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ المبین