کراچی ( ثاقب صغیر )طاقت کے زعم‘غنڈہ گردی ‘نشے میں دھت مسلح گارڈز کے ساتھ بھاری ہتھیاروں کی نمائش اور شہریوں پر تشدد کے واقعات نے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا ہے‘پولیس خاموش تماشائی ‘امیرزادے قانون سے بالاترہوگئے‘شہری خوف وہراس کا شکار ہیں ‘ بوٹ بیسن واقعہ پر پولیس کی نااہلی اور سست روی کے باعث مرکزی ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔حکومت سندھ کے اہم وزیر شرجیل میمن کی جانب سے گزشتہ دنوں ہی ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ شہر میں اسلحے کی نمائش کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔پوش علاقوں میں مسلح گارڈز کے ہمراہ بڑے ہتھیاروں کی نمائش معمول بن گئی ہے‘بوٹ بیسن میں شاہ زین مری کی جانب سے مسلح گارڈز کے ہمراہ دو شہریوں پر تشدد کے واقعہ نے ایک بار پھر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔تشدد کا نشانہ بننے والے شہری کے مطابق ملزمان شراب کے نشے میں تھے اور انہوں نے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اوراس کے دوست سمیت اسے تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کیا۔واقعہ 19 فروری کو ہوا‘دو دن بعد 21فروری کو واقعہ کا مقدمہ درج ہوا تاہم پولیس نے اس دوران ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔گذشتہ روز واقعہ کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہونے اور سوشل میڈیا پر شہریوں کی جانب سے پولیس پر تنقید کے بعد پولیس کو ہوش آیا تاہم پولیس کے دعوے کے مطابق مرکزی ملزم شاہ زین مری پولیس ناکے کو دیکھ کر گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گیا ۔پولیس حکام کے مطابق ملزم بلوچستان فرار ہو گیا ہے۔ملزم ڈیفنس میں گاڑی چھوڑ کر بلوچستان فرار ہوا تاہم پولیس پھر بھی اسے گرفتار نہیں کر سکی۔ اس سے قبل اپریل 2023 میں بھی سی ویو پر واقع ایک ریستوران میں شاہ زین مری نے گارڈ کے ہمراہ فائرنگ کر کے ریسٹورنٹ کے مینیجر کو زخمی کیا تھا تاہم اس واقعہ میں بھی پولیس صرف گارڈ کو ہی گرفتار کر سکی تھی۔پوش علاقوں میں بڑی گاڑیاں رکھنے کیساتھ زیادہ سے زیادہ گارڈز اور محافظ رکھنا بھی ایک ٹرینڈ بن چکا ہے‘امیرزادوں کے درمیان آئے روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار ہوتی ہے اور اپنے اپنے محافظین کے ساتھ بڑے ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے جس کے باعث شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں ۔ان ہتھیاروں کے قانونی ہونے پر بھی کئی سوالات ہیں۔قانون کے مطابق کوئی بھی ہتھیار خریدنے کے بعد اسکی انٹری مقامی تھانے میں ہونا ضروری ہے لیکن پولیس کے پاس اسلحہ رکھنے والے بیشتر افراد کی کوئی انٹری تھانوں میں موجود ہی نہیں ہے جبکہ دوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان کا لائسنس رکھنے والے افراد کی بھی کوئی انٹری تھانوں میں نہیں کی جاتی ۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سرداروں، نوابوں اور سرکاری افسران کی فیملیز کی بڑی تعداد ڈیفنس میں رہتی ہے ۔جولائی 2024 میں بھی ڈیفنس میں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو گروپوں نے بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔