پشاور( مشتاق یوسفزئی)مردان کے علاقے تحصیل کتلان کی ببو زئی گاؤں کی پہاڑیوں پر ہفتہ کی صبح مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے ڈرون حملے میں ایک چرواہا خاندان کے نو افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں دو خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔ مقامی افراد اور حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ افراد ضلع سوات کی تحصیل شمو زئی سے تعلق رکھتے تھے جو ہر سال سردیوں میں مویشیوں سمیت ان پہاڑی علاقوں میں آ کر آباد ہو جاتے تھے۔کے پی حکومت کے مطابق متعدد ہائی ویلیو اہداف کو نشانہ بنایا گیا جو کہ عسکری سرگرمیوں میں ملوث تھےسیکیورٹی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ حملہ مصدقہ انٹیلیجنس اطلاعات پر کیا گیا جن میں شدت پسندوں کی موجودگی اور عید الفطر کے دوران ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔واقعے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 50 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔معصوم شہریوں کی ہلاکت پر عوام، خصوصاً گوجر برادری، میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور مظاہرین نے مقتولین کی لاشیں سوات ایکسپریس وے پر رکھ کر سڑک کو کئی گھنٹوں تک بند رکھا۔ بعد ازاں، کمشنر مردان نثار خان کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین سے مذاکرات کامیاب ہوئے اور ایکسپریس وے کو کھول دیا گیا۔جاں بحق افراد کی شناخت یہ ہے:شیر زادہ ولد قیصر (70 سال، سیدو شریف)امروز خان ولد صاحب زادہ (30 سال، غالیگے، سوات)،وزیر زادہ ولد قلندر (40 سال، غالیگے، سوات)،طور ثواب ولد وزیر (25 سال، غالیگے، سوات)،شاہین زوجہ لال زادہ (35 سال، سیدو شریف)،صادق ولد پشام خان (20 سال، سیدو شریف)،محمد علی ولد صاحب زادہ (غالیگے، سوات)،شاہین ولد وزیر زادہ (16 سال، غالیگے، سوات)،بلال ولد وزیر زادہ (23 سال، غالیگے، سوات)۔تمام لاشوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کتلان منتقل کیا گیا جہاں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لقمان خان نے تصدیق کی کہ تین لاشیں بری طرح جھلس گئی تھیں اور ایک سر کے بغیر تھی، تاہم لواحقین نے ظاہری شناخت کی بنیاد پر اسے شنا خت کرلیا۔خیبر پختونخوا کے وزیر ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی خان جو خود سوات کے شمو زئی سے تعلق رکھتے ہیں، نے سب سے پہلے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی جب مین اسٹریم میڈیا نے اس واقعے کو نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے کہا، “یہ تمام نو افراد معصوم تھے، میں ان سب کو ذاتی طور پر جانتا تھا۔ ان کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ صرف مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں میں آ کر قیام کرتے تھے۔”انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سے بات چیت کے بعد حکومت نے 50 لاکھ روپے فی کس معاوضے، ایف آئی آر کے اندراج اور اعلیٰ سطحی انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔دریں اثنا، خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا:"29 مارچ کی صبح کتلان، مردان کے پہاڑی علاقے میں انسداد دہشت گردی آپریشن کیا گیا، جو مصدقہ انٹیلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر تھا۔ کارروائی میں کئی اہم شدت پسند مارے گئے جو علاقائی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔