پہلگام واقعے کو لے کر مسٹر پسوڑی کے طور پر دنیا بھر میں جانے مانے بھارتی وزیراعظم کی سفارتی و اندرونی سیاست میں مجبوریاں یہ ہیں کہ وہ خطے میں اپنی چوہدراہٹ کھو جانے کے صدمے سے دو چار ہیں۔ کانگریس ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہی ہے۔ پاکستان کی کامیاب سفارتی و معاشی سرگرمیاں، ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے انکار اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہنا، سری لنکا ، نیپال، بھوٹان، مالدیپ کے بعد خصوصاً بنگلہ دیش پر مودی سرکار کا کنٹرول ختم، خطے میں چین اور پاکستان کے بڑھتے سفارتی اثرو رسوخ نے ان کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ یقینا یہ ناکامیاں ان کے سیاسی تسلط کو خطرے سے دو چار کرسکتی ہیں۔ کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سکھ رہنماؤں کے قتل، امریکہ میں ان کے قتل کی سازش میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ان کے گلے کا پھندا بن سکتے ہیں۔
بھارت کی اندرونی سیاست کی کہانی یہ ہے کہ کانگریس نے مودی کی سیاسی منجی ٹھونک رکھی ہے۔ نئی دہلی کے عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی سے بزور طاقت اقتدار چھیننے کی سیاسی جنگ میں بی جے پی مخالف سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں سب کے سامنے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جارہا ہے۔ بھارت میں مسلمان اور عیسائی اقلیتیں مودی کی ہندو جنونیت کا مسلسل شکار ہو کر اپنی شخصی و مذہبی آزادیاں کھو رہی ہیں۔ اُن پر شدید بین الاقوامی دباؤ موجود ہے۔ پہلگام واقعے کو مقبوضہ کشمیرکی آرٹیکل 370کے تحت خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا، اس واقعے میں افغانستان اور بھارت سے جڑے بی ایل اے اور افغان طالبان کے پاس موجود امریکی اسلحے کا استعمال ہونا ایک ایسا سوال ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سات سے بارہ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ایک ایسے سیاحتی مقام پر جہاں تک پہنچنے کے لئے درجن بھر فوجی چیک پوسٹوں پر سیاحوں کی کڑی نگرانی، تلاشی لی جاتی ہو ایسے علاقے میں حملہ آور امریکی اسلحہ لئے کیسے پہنچے؟ یقینا بھارتی فورسز کے اندر موجود کسی نہ کسی نے تو یہ سہولت کاری کی ہوگی۔ تاریخ ہمیں ان حقائق سے آگاہ کرتی ہے کہ پاکستان جب بھی معاشی ترقی کی جانب قدم بڑھاتا ہے یا مودی جی کو کسی اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے یا امریکی صدور ، کوئی اعلیٰ عہدیدار بھارت کے دورے پر آتا ہے تو پہلگام جیسے سازشی منصوبوں پر عمل کرکے پاکستان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پلوامہ واقعہ ہو یا پہلگام ہندو مذہبی جنونیت کے شکار مسٹر مودی کی سیاست پاکستان کے خلاف سازشی تھیوری اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو کچلنے کے گرد گھومتی ہے۔
پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا دراصل ایک ایسا جنگی جنون ہے جو ایسے وقت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ جب پاکستان میں نئی نہروں کے مسئلے پر سیاسی جنگ و جدل ہو رہا ہے اور اس میں سندھ طاس معاہدے کا بار بار تذکرہ آنا دراصل مسٹر مودی کو مزید غلط فہمیوں کا شکار کررہا ہے کہ خدانخواستہ پانی کے مسئلے پر پاکستانی ریاست کمزور ہو رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی و اقتصادی کامیابیاں انہیں اس خوف میں مبتلا کررہی ہیں کہ کہیں پاکستان سینہ تان کر کھڑا نہ ہو جائے۔ انہوں نے تیزی سے بدلتے حالات و واقعات کا بالکل غلط تجزیہ کیا ہے۔ ٹرمپ ٹیرف سے چین کمزور ہو گا نہ بھارت کی پاکستان کے خلاف پہلگام جیسی سازشیں کامیاب ہوں گی۔
دنیا پاکستان کو اب ایک آنکھ سے نہیں دیکھ رہی۔ اسی لئے امریکہ ،اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ملک نے پہلگام واقعے پر کوئی فوری شدید رد عمل دینے کی بجائے بھارت کے ماضی کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی عوام کو مودی کی ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا جو وہ وزارت عظمیٰ سے قبل بطور وزیراعلیٰ گجرات مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر اب تک کرتے آرہے ہیں۔ نئی دہلی سے شائع ہونے والے اُردو اخبار ہندوستان ایکسپریس پہلگام واقعے کے اگلے روز لکھتا ہے کہ ” سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی اپنے آپ کو آر ایس ایس کا پرچارک کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے مگر ان کا انداز یہ تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ جو بھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہو وہ راج دھر کا پالن (حکمرانی کے اصولوں) کا احترام کرے۔
جب یہ بات احمد آباد میں گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ نریندر مودی سے کہی تو مودی جی نے نہایت بے شرمی سے سر ہلا کر کہا تھا کہ ”وہ یہی کررہے ہیں“ واجپائی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کہا کرتے تھے کہ ”انسانیت، جمہوریت، کشمیریت ضروری ہے۔“ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت جو لوگ برسراقتدار ہیں وہ جموں کشمیر کے مسئلے کو سنگین اور پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ ان کے دل میں کشمیریوں کے لئے کوئی ہمدردی یا احترام نہیں ہے۔ اخبار پہلگام جیسے واقعات بارے لکھتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر دستور ہند میں کشمیریوں کے لئے مخصوص دفعہ 370کا ذکر تھا اسے ہٹا کر کشمیر کو ریاست کے درجے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی ہندوستان میں پہلی بار ہوا ہے۔ ایسے لوگ جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتتے ہیں ظلم کرتے ہیں۔ کیا وہ انتہا پسندوں، دہشت گردوں کی مدد نہیں کرتے؟ اس طرح کا کام مودی اورامیت شاہ نہ صرف کشمیر میں کررہے ہیں بلکہ ملک کے مسلمانوں کے خلاف مختلف عنوانات سے کئے جارہے ہیں۔ قانون سازی کے ذریعے سے بھی ، غیر قانونی طریقے سے بھی، بلڈوزر کے ذریعے سے بھی تاکہ ان کا ”ہندو راشٹریہ“ کا ایجنڈا پورا ہوسکے۔