حالیہ مختصر جنگ کا مختلف حوالوں سے تجزیہ کر سکتے ہیں مگر عالمی سطح پر جس چیز کا اعتراف کیا گیا وہ پاکستان کی سفارتی اور جنگی برتری ہے۔یہ پہلی جنگ ہے جس میں پاکستان نے اپنے تمام پتے بہت دانشوری سے کھیلے۔کسی بھی موقع پر جذباتیت کا شکار ہو کر کوئی غلط شارٹ نہیں کھیلا۔ایک ایسا ملک جو اپنے گھمبیر اندرونی معاملات اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا تھا اور جسے ہندوستان اور اس کے ہمنوا تر نوالہ سمجھ رہے تھے نے دنیا کو اپنی ثابت قدمی سے حیران کر دیا۔امن کی بات ضرور کی مگر جنگ سے بھاگا نہیں۔پاک فضائیہ کی دھاک اور برتری پوری دنیا نے دیکھی اور تسلیم کی۔
یہ وہ جنگ تھی جو پاکستانیوں کی اکثریت نے سوشل میڈیا پر اپنی فوج اور حکومت کے شانہ بشانہ لڑی۔ شاید ہی کوئی لمحہ ہو جب ہم صورتحال سے بے خبر رہے ہوں۔ فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے اور حکومتی موقف اور کاوشوں کو دنیا بھر میں پہنچا رہے تھے۔ کچھ شرپسند عناصر کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے انڈیا پاکستان کو تر نوالہ سمجھ کر بات چیت کے دروازے بند کر بیٹھا تھا۔جدید اسلحے ، نفری اور امریکہ اسرائیل حمایت نے اس کی فرعونیت کو مزید تقویت دی۔ مگر پاکستانی فوج نے بتایا کہ جنگ صرف اسلحے کی مدد سے نہیں لڑی جاتی۔وجود میں ہمت اور حوصلے کا پٹرول نہ ہو تو جہاز خوف سے ہی گرنے لگتے ہیں۔
قربانی کے جذبے کو ڈھال بنا کراُڑنے والے خطروں سے بچ کر لوٹ آتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پوری دنیا نے دیکھا کہ اپنے سے کئی گنا طاقتور فوج کو کس طرح ہر محاذ پر شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی نسل کی مثبت سوچ اور حب الوطنی نے شدید متاثر کیا۔ اچانک شہروں میں گرنے والے میزائلوں اور ڈرونوں کی بارش نے انہیں متفکر کر دیا تھا۔مگر فوج کے طاقتور جواب نے ان کی ہمت بندھائی۔ میری بیٹی لمحہ بہ لمحہ جنگ کی صورتحال سے جڑی رہی۔ سیاستدانوں اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنسز سن کر جو مدلل تبصرہ کرتی تھی میں حیران رہ جاتی تھی۔ پاکستان کے طاقتور جواب پراْس کی خوشی دیدنی تھی۔ کیونکہ شاطر اور شرانگیز دشمن کے سامنے بزدلی دکھائی جائے تو وہ اور بدترین ہو جاتا ہے اور اپنے ارد گرد ملکوں کیلئے خطرہ بن جاتا ہے۔اْس کو یہ بھی اطمینان تھا کہ ہماری فوج نے سویلینز پر حملے نہیں کئے، ہم سمجھتے تھے یہ لوگ زمینی حقائق سے بے خبر اور بے پروا اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں تھا اْن کا قصور نہیں تھا انھیں گھروں اور اسکولوں میں یہی تصویر دکھائی گئی اور اس طرح انکی برین واشنگ کی گئی کہ وہ بھی جھانسے میں آگئے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ نئی نسل کی اکثریت شخصیت پرستوں کے بہکاوے میں آکر فوج کے خلاف اپنے اندر شدید غم و غصہ پالے بیٹھی تھی کہ سوشل میڈیا پر تاثرات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انکے خیالات میں حیرت انگیز تبدیلی آ چکی ہے۔
یقیناً فوج اور حکومت عوام میں اپنا مورال بحال کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب دونوں کو اس مورال کو قائم رکھنے کیلئے جدوجہد کرنی ہے۔بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے کشمیر اور دیگر مسائل حل کرکے پائیدار امن اور خوشحالی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ غربت ، جہالت ، صحت اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے ایشوز پر مل کر کام کرنا ہوگا۔ رحمان فارس کے اشعار جو دونوں ملکوں کے عوام کے لئے ہیں۔
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عمروں میں اِنہیں ہم موت کیوں بانٹیں ؟
بڑے معصوم بچے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
پڑوسی یار ! جانے دو، ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
بھلا اقبال و غالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے ؟
کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں ؟
پرندے دانہ چگتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے ادھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
سنبھالیں ان کو مل جل کر سکھائیں فن محبت کا
بہت جوشیلے لڑکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اِدھر لاہور اُدھر دِلّی، کہاں جائیں گے ہم فارس
یہی دو چار قصبے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی