پاک بھارت معرکہ حق و باطل کے دوران اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے پہلگام واقعے پر بلا تحقیق بھارت کی کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مودی کو فون کرکے برملا کہا کہ ” مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہئے“ پھر دنیانے دیکھا کہ بھارت کے بزدلانہ حملوں میں اسرائیلی ڈرونز پاکستان کی شہری آبادیوں، فوجی تنصیبات پر گرائے گئے۔ کوئی بعید نہیں پہلگام کے من گھڑت منصوبے کا اصل تخلیق کار اسرائیل ہی ہو۔ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کی واضح مثال یہ ہے کہ جب اسرائیل حماس جنگ کا آغاز ہوا تو یورپی ممالک اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ بھارت وہ ملک تھا جس نے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کو ہتھیار، گولہ بارود، جنگی سازو سامان فراہم کیا۔ مودی بھارت کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے اسرائیل کا باضابطہ طور پر سرکاری دورہ کیا اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کو بڑھاوا دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ، عرب ممالک سمیت کوئی بھی ملک پاک بھارت جنگ میں براہ راست کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس موقع پر اسرائیل کا براہ راست ملوث ہونا مستقبل میں خطے کے امن و تباہی بارے بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پیشکش کردی اور عرب ممالک نے ہمیں کہہ دیا اور مودی سرکار اسکے نتیجے میں اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھے گی اور معرکہ حق و باطل ختم ہوگیا تو یہ خام خیالی ذہن سے نکال دیں کہ بھارتی عوام کو ہندو توا نے انتہا پسندی کی جس ڈگر پر ڈال دیا گیاہے اس سے نکلتے نکلتے ایک عرصہ درکار ہے۔ پہلگام واقعہ پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی ناکام سازش تھی۔ اس کے اثرات سے ہمیں بہر صورت چوکنا رہنا ہوگا۔ محسوس یہی کیا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارتی چوہدراہٹ عملی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ تاریخی معرکہ ِحق نے حیران کن طور پر طاقت کا توازن چین و پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ دونوں آہنی دوست خطے میں طاقت کا ایک مضبوط ترین ستون بن کر ابھرے ہیں۔ ترکیہ، آذربائیجان، ایران، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، نیپال کی انہیں خاموش مگر بھرپور حمایت حاصل تھی۔ مودی سرکار کی انہی حماقتوں اور کمزوریوں کا نتیجہ ہے کہ ٹرمپ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ نادان دوست سے ماضی و حال کے کمزور مگر دانا اتحادی پاکستان پر انحصار کرنا بہتر ہے۔ ٹرمپ کی جنگ بند کرو، تجارت کرو ،پالیسی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پیش کش، پاک بھارت سیاسی قیادت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی ترغیب ایک فریق کیلئے سنہرا تو دوسرے کیلئے ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ ٹرمپ پر منحصر ہے کہ وہ خطے میں اپنا متوازن کردار کیسے نبھائیں گے؟ تجارت سے امن یا ایٹمی جنگ سے بڑی تباہی، وقت ہی بتائے گا کہ یہ کٹھن مرحلہ کیسے سر ہوگا؟ دو ایٹمی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے اپنی دفاعی قوت کی ہلکی سی جھلک دکھائی ہے۔ اگر سپہ سالار پاکستان جنرل عاصم منیر چاہتے تو جنگ کے اگلے ہی لمحے بھارت کے مرکزی دفاعی اثاثو ں کے ساتھ ساتھ مودی کی ہندو توا سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گنگا جمنا میں ڈبو دیتے مگر انہوں نے یہ سوال دنیا پر چھوڑ دیا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے صبرو تحمل، پختہ عزم اور ذمے دار قیادت کے ہاتھوں میں ہیں اور ان اثاثوں کا ہونا پاکستان کی بھارت کے خلاف دفاعی ضرورت ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ایٹمی اثاثے ایک ایسے جنونی ، احمق اور انتہا پسند شخص کے ہاتھ میں ہیں جو اپنی حماقت سے کسی بھی وقت دنیا کو بڑی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے اور اس کی اقتدار میں موجودگی سے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ معرکہ حق نے دوست دشمن سب واضح کر دیئے ہیں۔ روس بھارت کی واضح حمایت سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔ امارات اسلامیہ افغانیہ کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اگر افغان حکمران کسی کی پراکسی نہیں تو اب بھی وقت ہے کہ سچے،پکے ،کھرے مسلمان کے طور پر راہِ حق پر آجائیں۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا میں بے گناہوں کا خون بہانے والی بھارتی پراکسیز کا ساتھ نہ دیں۔ افغان حکام کو بھی سمجھ آجانی چاہئے کہ افغانستان اور پاکستان کا امن و خوش حالی ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔ معرکہ حق میں بھارت کی عبرت ناک شکست نے جنوبی ایشیا میں امن کی نئی راہیں کھولی ہیں۔ ایران، امریکہ تعلقات میں بہتری کے امکانات اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ معرکہ حق عرب دوستوں کو بھی پیغام دیتا ہے کہ وہ بھارت جیسے مکار پر انحصار کرنے کی بجائے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مدبرانہ قیادت میں پاکستان کو معاشی و دفاعی لحاظ سے مضبوط کرکے اُمت مسلمہ کے اتحاد کو عظیم تر بنائیں۔ ترکیہ، آذربائیجان کے غیر مشروط تعاون و حمایت پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ معرکہ حق کا حاصل یہ ہے کہ پاک چینی دوستی زندہ باد۔ یہ دوستی خطے میں امن ، ترقی و خوش حالی کی ضامن ہے۔بھارت کیخلاف ہم نے جو جنگ جیتی ہے اسے مذاکرات کی میز پر بھی ڈٹ کر لڑا جائے۔ اپنا ہوم ورک مکمل کرکے جائیں، اپنے حصے کے پانی کی ایک ایک بوند واپس لے کر آئیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی مجوزہ ابتدائی تجاویز میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی، کنٹرول لائن کے آر پار کشمیری بہن بھائیوں کو آزادانہ آمدورفت کی اجازت، پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے مکمل خاتمے اور بھارت میں انکے تربیتی مراکز کی بندش اہم نکات ہوسکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں، مودی !ساڈا حق ایتھے رکھ۔