یورپ اس وقت دو بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ۔ امریکہ نے چونکہ یورپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھالیا ہے ، اس لیے اسے دندل پڑی ہوئی ہے ۔ امریکی مدد کے بغیر یورپ جنگ لڑنے کی برائے نام صلاحیت رکھتا ہے ۔ان کی آنکھوں کے سامنے روس نے ایک یورپی ملک یوکرین کو واپس نگل لیا ہے ۔ سب ایمپائرز کی طرح سوویت یونین بھی ایک توسیع پسندانہ ایمپائر تھی ورنہ افغانستان میں اس کیلئے کیا رکھاتھااور اب یوکرین میں کیا۔آپ کے خیال میں امریکی صدر جب کینیڈین وزیرِ اعظم کو کہتاہے کہ امریکہ کی 51ویں ریاست بن جائو تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔وہی توسیع پسندی ۔ روس نے یوکرین کو شکست نہیں دی ،دراصل نیٹو کو۔ ادھر امریکہ کو چین کی دندل پڑی ہوئی ہے ، جو اسے معاشی میدان میں شکست دینے کیلئے پر عزم ہے ۔ چینی جنات کی طرح بروئے کار آتے ہیں۔
دوسری بہت بڑی تبدیلی یہ رونما ہو رہی ہے کہ یورپ پہلی بار اسرائیلی دہشت گردی پہ بے چین ہورہا ہے ۔ غزہ میں مسلسل قتل و غارت سے تنگ آکر یورپی یونین نے فیصلہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات پہ نظرِ ثانی کی جائے۔ایک ہفتہ قبل سات یورپی ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ کی جنگ اور محاصرہ ختم کیا جائے، جو قحط کا باعث ہے ۔ چوالیس ہزار عورتوں اور بچوں کے قتل کے بعد یورپ کو ہوش آرہا ہے ۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اسپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیزنے کہا: اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ ہم تجارت نہیں کرتے ۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہٹلر نے اگر دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں پر مظالم ڈھائےتو اس کی تلافی کیلئے عیسائی ممالک نے یروشلم کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا دنیا میں غیر آباد زمینوں کی کوئی کمی تھی۔ صرف اور صرف مسلمانوں کو تنگ کرنے کیلئے۔یہودیوں اور عیسائیوں کیلئے مسلمان مشترکہ خطرہ ہیں ۔ وہ دنیا پہ حکومت کر چکے ہیں۔ آٹھ صدیاںقبل صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو جس شکستِ فاش سے دوچار کیا، وہ غم ان کے دل سے نکل نہیں سکا۔
یہودیوں کے دل سے آج تک یہ غم نہیں نکل سکا کہ مدینہ منورہ سے انہیں نکال دیا گیا ۔یورپی لیڈر اب اسرائیل پہ تنقید اسلئے کر رہے ہیں کہ مظاہرین کا دبائو ہے ۔ آخری آپریشن شروع ہونے کے باوجود حماس اب اسی لیے اسرائیلی فوجیوں پہ حملہ نہیں کررہی کہ رائے عامہ اسرائیل کے خلاف بڑی حد تک ہموار ہے ۔خیر یورپ تو جو کرے گا سو کرے گا ۔سوال تو یہ ہے کہ پاکستان نے کیا کیا۔
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
مسئلہ کشمیر برطانیہ نے تخلیق کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے جب پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کا کہا گیا تو بے حسی سے امریکی صدر نے کہا : پاکستان اور بھارت گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے لڑ رہے ہیں ، وہ خود ہی مسئلہ حل کریں گے ۔امریکی نائب صدر نے کہا: پاکستان بھارت کشید گی سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ۔ دنیا کا حال یہ ہوگیا کہ دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پہ کھڑی ہیں اور سپر پاور کا صدر کہہ رہاہے کہ ہم کیا کریں۔ ہر گزرتی ساعت اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دنیا بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔
کیا کبھی کسی عالمی لیڈر نے برطانیہ سے یہ سوال کیا کہ کشمیر کا مسئلہ تخلیق کر کے 90ہزار انسان تم نے قتل کراڈالے۔ تم انسان ہو کہ حیوان ؟ یہ دونوں ہمسایہ ممالک ایٹمی قوتیں بن چکے ۔عالمی امن ہر لمحہ خطرے میں رہتاہے اور امریکی صدر بے حسی سے کہتاہے کہ میں کیا کروں ۔ بعد ازاں جب بھارتی جہاز گرے تو گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا۔ڈونلڈ ٹرمپ اب جنگ رکوانے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں ۔
جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی
امریکہ کس منہ سے بھارت کو کشمیر اور اسرائیل کو فلسطین کے قتلِ عام پر ٹوکے۔ ایک صدی میں ساڑھےپانچ کروڑ ریڈ انڈینز خود امریکیوں نے قتل کیے۔
والدِ محترم ہارون الرشید نے فلسطین پر ایک پروگرام ریکارڈ کرایا۔ یوٹیوب نے ان پر تین ماہ کی پابندی لگا دی ۔ فیس بک اور یوٹیوب سمیت جن سوشل میڈیا ایپس پہ مسلمان اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، وہ یہودیوں کی ملکیت ہیں ۔ اس ڈیڑھ سالہ خوں ریزی میں بل گیٹس جیسوں کا بھانڈہ بھی پھوٹ گیا ۔ پوری دنیا میں پولیو کو وہ سونگھتے پھرتے ہیں ، چوالیس ہزار عورتوں اور بچوں کا علانیہ قتل ان کے نزدیک کوئی واقعہ ہی نہیں ۔
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
مائیکروسافٹ نے فیصلہ کیاکہ جس ای میل میں فلسطین یا قتلِ عام کا ذکر ہو، اسے روک دیا جائے ۔
ہوائیں انکی ،فضائیں انکی ،سمندر انکے ، جہاز انکے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ،بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
یہودی تو خیر جو کہتے ہیں سو کہتے ہیں، پاکستان میں بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب 7اکتوبر2023ء سے شروع ہوا۔خود فلسطینی اتھارٹی کے صدر ،سمجھوتہ کر چکےمحمود عباس نے حماس کو گالی دی ۔ یعنی حماس نہ یہودیوں پہ حملہ کرتی اور نہ جواباً 62ہزار فلسطینی شہید ہوتے ۔ ان لوگوں کے خیال میں 7اکتوبر سے پہلے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ۔ 75برس میں نہ تو فلسطینیوں سے ان کی کوئی زمین چھینی گئی اور نہ کوئی بے گناہ قتل کیا گیا۔ جو کچھ ہوا 7اکتوبر2023ء کو ہوا۔ اسرائیلی تو وگرنہ پر امن قوم ہیں ۔
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
اور آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں ؐگئی