اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ نے کہاکہ ججز کے تبادلوں میں 4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے، ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں تبادلہ،ایک درجے پر بھی انکار ہوتو جج کا تبادلہ نہیں ہوسکتا،عدالت عظمی کے آئینی بینچ میں دیگر ہائی کورٹوں کے تین ججوں کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ اوراسی بنیاد پر نئی سنیارٹی لسٹ کی تشکیل کے خلاف دائر کی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے متاثرہ ججوں کی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک جج کے ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کے عمل میں چار درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے، اگر ایک درجے پر بھی انکار ہوجائے تو اس جج کا تبادلہ نہیں ہوسکتا ہے ، اگر ٹرانسفر ہونے والا جج انکار کردے تو عمل رک جاتا ہے ، اگر متعلقہ ہائیکورٹ کا چیف جسٹس یا جس ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوناہے؟اسکا چیف جسٹس انکار کردے تو بھی یہ عمل رک جاتا ہے ،ان تین مراحل کے بعد اگر چیف جسٹس آف پاکستان انکار کر دیں؟ تو بھی یہ عمل رک جاتا ہے ،ز یرغور مقدمہ میں بھی پہلے تین مراحل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی رائے کی روشنی میں یہ عمل منظور ہوا ہے ،اگر یہ سب کچھ انتظامیہ ہی کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس شاہد بلال حسن،جسٹس صلاح الدین پنہور اورجسٹس شکیل احمد پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بینچ نے سوموار کے روز مقدمہ کی سماعت کی تو کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے گزشتہ دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا قانون میں صوبوں سے ججوں کی تقرری کا ذکر تو موجود ہے لیکن ، تبادلے کی اجازت نہیں ، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ کا کہنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیگر ہائی کورٹوں کے جج تبادلے پر نہیں آ سکتے ہیں ؟ تو فاضل وکیل نے موقف اپنایاکہ اگر تبادلہ ہو بھی جائے توبھی مستقل نہیں ہوگا، تبادلے سے واپس جانے پراس جج کو دوبارہ حلف نہیں اٹھانا ہوگا۔