• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری پیاری بیٹی محور سیّدزادی بچپن سے کہا کرتی تھی کہ میں بڑی ہو کر امریکا میں پڑھوں گی اور امریکا میں ہی رہوں گی۔ چشمِ شعور وا ہونے سے بہت پہلے ہی وہ اس نتیجے تک کیوں کر پہنچی؟ غالباً گھر کے بڑوں کی گفتگوسُن کر جس کا مرکزہ ہوا کرتا تھا، پاکستان کی ہانپتی کانپتی جمہوریت، آمریت کاہتھوڑا، انتہا پسندی کی دلدل، عدم برداشت کا عفریت، انسانی حقوق کاجنازہ،اور میرٹ کا قتلِ عام۔ محور اپنے امریکن ڈریم کے ساتھ بڑی ہوتی گئی اور اب بی اے کی طالبہ ہے۔ کچھ دنوں سے محور ٹرمپ کی امریکی یونی ورسٹیوں کے خلاف جنگ پر بہت برہم تھی، بالخصوص ہاورڈ یونی ورسٹی کی گرانٹ بند ہونے، اور غیرملکی طلباء کے داخلے پر پابندی کے حکومتی اقدام سے۔بہرحال، کل شام میری بیٹی میرے پاس آئی اور اعلان فرمایا کہ’’میں امریکا نہیں جائوں گی‘‘۔

دنیا کی شکل بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جمہوریت اور اس کے متعلقات پسپا ہو رہے ہیں، انسانی حقوق، مساوات، عالمی قوانین جیسے نظریات پچھڑ رہے ہیں، یعنی وہ دنیا جس کا خواب ہم جیسوں نے دیکھا تھا پریشان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق آج دنیا کی صرف 6.6 فی صد آبادی جمہوری نظام کے تحت زندگی گزار رہی ہے، اور غیر جمہوری ملکوں کی تعداد پچھلے دس سال میں 52 سے بڑھ کر 60 ہو چکی ہے۔بہ ظاہر جمہوری نظر آنے والے ممالک میں آمرانہ رویے مستحکم تر ہوتے جاتے ہیں۔منتخب اداروں کو نکیل ڈالی جا رہی ہے، ہنگری اور اٹلی کی طرح، امریکا میں بھی ایگزیکٹو پاورز سے حکومت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے یعنی جمہوریت کی روح کہلانے والے اداروں کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو معطل کیا جا رہا ہے۔ پاپولزم ایک سیاسی فیشن بن چکا ہے جسکی بنیاد میں نفرت کا گارا شامل ہے، پاپولسٹ راہ نما اور انکے حواری اپنے سیاسی مخالفین کوقابل ِ گردن زدنی سمجھتے ہیں، خود کو حب الوطنی کا استعارہ اور سیاسی مخالف کو وطن دشمن قرار دیتے ہیں ۔ اس مسموم فضا میں اپوزیشن کو ’’گورنمنٹ ان ویٹنگ‘‘ نہیں سمجھا جاتا بلکہ ’’وطن دشمنوں‘‘ کا ٹولہ سمجھا جاتا ہے جنہیں بہ ہر صورت اقتدار سے باہر رکھنا حُب الوطنی کا اولین تقاضا مانا جاتا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں میں آج جمہوریت کی روح سے رُوگردانی کی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو حکومت سے متفق نہیں ہے وہ غدار ہے، بھارت میں ایسے لوگوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے، اور امریکا میں اینٹی سمیٹک (یہود مخالف)۔ امریکا میں آج کل جن یونی ورسٹیوں کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے ان پر یہی الزام ہے کہ ان کے کیمپس میں یہود مخالف رویے پروان چڑھائے جا رہے ہیں۔ آج تک امریکا میں یونی ورسٹیوں کو فکری و تخلیقی آزادی حاصل رہی تھی جہاں کچھ بھی اناپ شناپ بولا جا سکتا تھا اور حکومتیں بھی ان دیوانوں سے صرفِ نظر کرتی تھیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ کل ویت نام کی جنگ کی مخالفت کر نے والے طلباء کو اس کی اجازت تھی، آج فلسطینیوں کے قتلِ عام کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ ان آمرانہ رویوں کو نئی ٹیکنالوجی فیصلہ کُن مدد فراہم کر رہی ہے، سرویلنس کے جدید نظام شہریوں کی آواز اور چہرہ تو پہچان ہی لیتے ہیں، ان کے خیالات تک بھانپ لیتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی بڑبڑاہٹیں بھی سُن لیتے ہیں، فون، میسج اور ای میلز تک کھنگال لیتے ہیں۔ شہریوں کا ٹینٹوا آمریت کی گرفت میں آ چکا ہے۔

دنیا بھر میں آمریت کی پیش قدمی جاری ہے۔ آزاد پریس کم زور سے کم زور تر ہو رہا ہے، آزاد پالیسی رکھنے کے جرم میں میڈیا اداروں پر پابندیاں لگ رہی ہیں، آر ایس ایف رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آزاد صحافت کو ’’بحران‘‘ کا سامنا ہے، امریکا لڑھکتا ہوا آزادیء صحافت کے اعتبار سے 57 ویں پوزیشن پر آن پہنچا ہے، جب کہ بھارت پچھلے دس سال میں 35 درجے نیچے گر چکا ہے۔ جو میڈیا ہائوس حکومت کا اتحادی نہیں ہے وہ ’’فیک نیوز‘‘ دے رہا ہے اور ’’عوام دشمنی‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس ماحول میں کون سی جمہوریت اور کہاں کا مکالمہ۔ یہی چیلنج دنیا بھر کی عدالتوں کو بھی در پیش ہے، دنیا بھر میں جسٹس سسٹم زوال آمادہ ہے، رُول آف لا انڈیکس کے مطابق پچھلے دس سال میں 81 فی صد ملکوں میں قانون کی حکم رانی کو زک پہنچی ہے اور عدالتی نظام انسانی حقوق کے تحفظ میں نامراد رہے۔ یہ ہیں آمریت کی فتوحات۔ معاشی عدم مساوات کا فروغ جمہوری نظام کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے، دنیا میں دولت بڑھی ہے اور ارتکازِ دولت اس سے بھی تیزرفتاری سے بڑھا ہے، امریکا میں ایک فی صد امراء کے پاس پچاس فی صد امریکیوں سے دس گُنا زیادہ دولت ہے، بھارت میں ایک فی صد امراء کے پاس ملک کا چالیس فی صد سرمایہ ہے، جب کہ پچاس فی صد بھارتیوں کے پاس تین فی صد، بلاشبہ، بھارت میں اس وقت برطانوی استعمار کے دور سے کہیں زیادہ معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ یہ غیر منصفانہ معاشی تقسیم جمہوری اور سرمایہ داری نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے، اور یہی سبب ہے کہ دنیا بھر کے عوام میں جمہوری نظام کی حمایت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ جب تک ایک متبادل نظام یعنی کمیونزم کا سامنا تھا، مغربی جمہوریتیں انسانی حقوق کی نمائش کرتی رہیں، اب شاید اس اداکاری کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جارہی۔

یہ درست ہے کہ جو پریشانی مغرب کے جمہوریت پسندوں کو اس وقت لاحق ہے وہ ہمیں نہیں ہے، ’’صد شکر‘‘ کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی توانا تھی ہی نہیں ، اس لیے ہماری سینہ کوبی بھی مدھ لے میں ہے۔ بہرحال، محور صاحبہ فرما رہی ہیں کہ اگر انہوں نے کسی ایسے ہی ملک میں رہنا ہے جہاں انسانی حقوق اور شخصی آزادیاں مفقود ہوں تو انہیں پاکستان سے زیادہ عزیز کون ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین