خدا نے فرشتوں سے جب یہ کہا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے لگا ہوں تو دم بخود وہ بولے:کیا تو ایسے کو زمین پہ نائب بنائے گا جو فساد کرے گا ، خون بہائے گا اور ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو کیسے پتہ چلا کہ انسان جب تخلیق کیا جائے گا تووہ قتل و غارت کرے گا۔ اگر ان کے پاس اتنا علم ہوتا تو انہیں پھر یہ بھی علم ہوتا کہ انسانوں پر وحی اور شریعت اترے گی ۔ فرشتوں کے پاس اگر اتنا علم ہوتا توآدمؑ سے وہ شکست کیسے کھا جاتے ۔ اربوں برس میں انہیں کائنات میں موجود چیزوں کے نام تک معلوم نہیں تھے ۔یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ انسان جیسی مخلوق بہت زیادہ قتل و غارت کرے گی ۔
اس کا جواب فاسلز دیتے ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت دنیا میں جوآٹھ ارب انسان زندہ ہیں ، ان کے جدـ امجد حضرت آدم علیہ السلام ہیں ۔قرآن مگر تردید نہیں کرتا کہ ہوموسیپین سے پہلے کبھی دوٹانگوں پہ چلنے والا کوئی موجود نہیں رہا۔ یہ البتہ قرآن میں لکھا ہے کہ زمانے میں انسان پر ایک طویل وقت ایسا گزر چکا ہے ، جس میں وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہیں تھا،سورۃ دہرآیت 1۔ اسکا مطلب ہے کہ اس وقت انسان ارتقا سے گزر رہا تھا۔ فاسلز کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ بیس سپیشیز ایسی گزر چکی ہیں ، جو دو ٹانگوں پہ چلتی تھیں ۔ ہم ہوموسیپین تین لاکھ سال پہلے نمودار ہوئے اور ایک لاکھ سال پہلے افریقہ سے باہر نکلے۔
ہم سب سے آخر میں کیوں پیدا ہوئے جب کہ ہمیں بنانا ہی مقصود تھا۔ خدا نے زندگی کو پانی میں ایک زندہ خلیے کی شکل میں پیدا کیا۔ پھر اسے پیچیدہ کیا ، پھر اسے رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز )کی صورت میں زمین پہ اتارا ، پھر اسے دودھ پلانے والے جانوروں (میملز)میں تبدیل کیا، پھر میملز میں سے قدرے بڑے دماغ والے پرائمیٹس نکالے ، پرائمیٹس میں سے گریٹ ایپس بنائے ، پھر ان کی ریڑھ کی ہڈی سیدھی کر کے دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑا کیا ، پھر ان میں سے انسان جیسا ذہین اور خوبصورت جاندار بنایا۔ اس سارے عمل میں اتنا ہی وقت لگتا ہے ۔
فرشتے اندازہ نہیں لگا رہے تھے بلکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ ایک لاکھ سال پہلے ہوموسیپین افریقہ سے نکل آیا تھا اور جہاں جہاں وہ جا رہا تھا ، کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا۔فاسلز تصدیق کرتے ہیں کہ جس وقت ہومو سیپین زمین پہ پیدا ہوا تو اس وقت 9اور قسموں (سپیشیز) کے انسان بھی زمین پہ زندگیاں بسر کر رہے تھے ۔ آج صرف ہومو سیپین باقی ہے ۔ باقی مار ڈالے گئے ؟ہوموسیپین، جوایک مرلہ زمین کیلئے اپنے بھائی کو قتل کر سکتاہے، دوسری سپیشیز کو اس نے بخش دیا ہوگا؟ یہ سب کچھ دیکھ کر فرشتے چیخ اٹھے کہ یہ ہے اللہ کا نائب؟ جب آدمؑ سے علمی شکست ہوئی تو پھر وہ سمجھ گئے ۔ شیطان بھی سمجھ گیا کہ علمی میدان میںآدم کا مقابلہ ممکن نہیں ۔اس نے پھر علم کے میدان میں چیلنج کیا بھی نہیں ۔ وہ پھر شکل وصورت او رکیمیا پہ آگیاکہ یہ تو سڑی ہوئی مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے ۔آدم نے مگر تکبر نہ کیا، غلطی ہوگئی تو رونے لگا، ہاتھ جوڑنے لگا۔
انسا ن سانس لینے سے لے کر اولاد پیدا کرنے تک دوسرے جانوروں جیسا ہی ہے ۔ وہ شعر کیسے کہنےلگا اور میزائل کیسے اڑانے لگا ؟ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ خدا نے ہمارے اندر ایک زبردست علمی صلاحیت رکھی تاکہ ہم علم حاصل کر کے اس کی ذات کو پہچان سکیں ۔ خدا نے جب فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے لگا ہوں تو آدم ؑ اس وقت زمین پہ نہیں تھے۔ فرشتوں سے ان کا مقابلہ بھی اوپرہوا تھا ۔ اللہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شیطان آدم ؑ سے شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگوا دے گا۔ اس کے بعد اسے زمین پہ اتار دیا جائے گا۔ زمین پر روحِ آدم کو ایک جسم درکار تھا۔یہ وہی جسم تھا، جسے پونے چار ارب سال کے ارتقا سے گزار کر تخلیق کیا گیا تھا۔
ایک لاکھ سال پہلے ہومو سیپین افریقہ سے نکلا اور دسیوں ہزار سالوں تک اس نے یورپ سے لے کر آسٹریلیا تک باقی 9سپیشیز کو ختم کیا۔گو جنگوں کا کوئی ٹھوس ثبوت اب تک نہیں ملا۔ براہِ راست قتل و غار ت نہ بھی ہوئی ہو تو اس نے باقیوں سے وسائل چھین لیے ہوں گے ۔ اس کے پاس بہتر ذہن اور بہتر اوزار تھے ۔ اس کے بعد آئس ایج آگئی ۔
سائنسی علم یہ بتاتا ہےکہ آج سے 70ہزار سال قبل آئس ایج اپنے عروج پر تھی ۔ انسان دنیا سے تقریباً مکمل طور پر ختم ہوتے ہوتے بچا لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ پھر بھی کم از کم ایک ہزار انسانی جوڑے زندہ تھے ۔ فاسلز کا علم بتاتا ہے کہ یورپ کا نینڈرتھل مین چالیس ہزار سال پہلے تک زندہ رہا اور Denisovansپچاس ہزار سال پہلے تک ۔
اگر سارے ہی ہوموسیپین خدا کے نائب ہوں تو وہ نیتن یاہو کی طرح ساٹھ ہزار جیتے جاگتے انسانوں کو قتل کر دیں ؟بہرحال اب تو آخری پیغمبر ﷺکو گزرے ہوئے بھی ڈیڑھ ہزار سال ہو چکے ہیں ۔ اس خوں ریز داستان کا اس وقت آخری باب لکھا جا رہا ہے ۔اس کے بعد ہم سب نے پھر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ۔