• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ یہ دنیا اتنی تکلیف دہ کیوں ہے۔ آپ غزہ کو دیکھ لیں۔ جنگل میں درندے ماں کے سامنے بچے کو کھا جاتے ہیں۔ جو لوگ کسی پر ظلم نہیں کرتے، وہ بھی یہ اذیت ناک مناظر دیکھ کر تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غزہ میں ایک ڈیڑھ سالہ بچہ دیوار سے ٹیک لگائے نیند میں جھول رہا تھا۔ وڈیو بنانے والے نے بتایا کہ اس کے ماں اور باپ دونوں شہید ہو چکے۔ دل میں جیسے ایک تیر پیوست ہو گیا۔ صاحبِ اولاد بھلا کتنا کٹھور ہو سکتا ہے۔ نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے غزہ کے بچوں کا خیال آتا ہے اور آدمی احساسِ جرم کا شکار ہو جاتا ہے۔افریقہ کے جنگلات میں جنگلی کتے ہرن کو پکڑ لیتے ہیں لیکن شیر کے برعکس وہ اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں کہ اسکا گلا دبوچ کر اسے مار سکیں۔ دو تین کتے ہرن کو اسکے منہ سے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے اسکی پشت سے زندہ جانور کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ پیٹ تک کھا چکتے ہیں تب کہیں تڑپ تڑپ کر اس کی موت واقع ہوتی ہے۔

برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے غزہ میں اسرائیل کے مظالم پر تنقید کی تو اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے کہا :تم انسانیت کی غلط سمت میں کھڑے ہو، تم تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہو۔ نتن یاہو نے انہیں بچوں کے قاتلوں اور عورتوں کی عزتیں لوٹنے والوں کا ہمدرد کہا۔ اس سے بڑا لطیفہ اور کوئی ہو سکتا ہے؟ لوگ جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پھر وہ ڈنڈے کے زور پر خو دکو حق پر بھی قرار دیتے اور قرار دلواتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کے خلاف بغاوت کرنے والے بھی خود کو حق پر قرار دیتے تھے۔ حضرت امام حسین کا سر کاٹنے والے بھی خود کو حق پر قرار دیتے تھے۔ یہ دنیا منافقت سے بھری ہے۔ لوگ حق کا ساتھ نہیں دیتے، طاقتور کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مظہر اقوامِ متحدہ ہے، جہاں شاید ہی کبھی کسی کمزور ملک کی پکار سنی گئی ہو۔ جس ملک کی جتنی بڑی معیشت اور جتنی جنگجو فوج ہو اس کا اتنا ہی اکرام کیا جا تا ہے۔یہ دنیا ایسی کیوں ہے؟ ایک اور طرح کی دنیا بھی خدا تخلیق کر سکتا تھا۔ ایک ایسی دنیا ، جس میں تمام جاندار سبزی خور ہوتے۔ وہ سیارہ سائز میں بہت بڑا ہوتا۔ پودے وافر مقدار میں ہوتے۔ جانداروں کے بچے پیدا کرنے کی شرح مرنے والوں کی شرح کے برابر ہوتی۔ انسانوں کے جینز میں ایک تبدیلی کر دی جاتی تو وہ گریٹ ایپ چمپنزی کی طرح پرتشدد ہونے کی بجائے گریٹ ایپ بونوبو کی طرح پر امن ہوتے۔

ایک شاعر جو مکروہات میں مبتلا نہیں تھا، اسے طنزاً کسی نے سبزی خور شاعر کہا تھا۔ شاعر نے جواباً یہ پوچھا: یا شاعری کرنے کیلئے بستہ الف کا بدمعاش ہونا ضروری ہے؟ سوال یہ ہے کہ ایسی سبزی خور دنیا تخلیق کرنے کا مقصد بھلا کیا ہوتا؟ اگر آپ دنیا کا جائزہ لیں تو یہ ایک کشمکش کیلئے بنی ہے۔ امریکہ تنہا اپنی سپر پاوری سے لطف اندوز ہو رہا ہو گا تو سامنے جنگی بدمعاش روس آجائے گا اور معاشی میدان میں چین۔ اسرائیل جو مرضی کر لے، حماس اسے یہ دنیا اور یہ زندگی انجوائے کرنے نہیں دے گی، خواہ وہ ان میں سے ایک ایک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔یہ دنیا انجوائے کرنے کیلئے نہیں بنی۔ کوئی زندہ شخص اس زندگی کو مستقل انجوائے کر ہی نہیں سکتا۔ آپ موت کا کیا کرینگے۔ بیماری کا کیا کرینگے۔ باکسر محمد علی کو اگر پارکنسن لاحق ہو گئی تو دولت اس کا حل تو نہیں نکال سکی۔ محمد علی کی سب سے زیادہ خوفناک فائٹ اس کی بیماری سے ہوئی تھی، جو تین عشرے تک جاری رہی اور وہ ثابت قدم رہا۔ موت کا آپ کیا کر لیں گے۔ بڑھاپے کا کیا کر لیں گے۔ نوجوانی میں انسان برف باری سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے، چالیس سال بعد وہی شخص صرف اور صرف ایک گرم کمرے کا خواہشمند ہو گا۔ جس طرح کا جسم جانداروں کو دیا گیا ہے، اس میں تکلیف سے بچنا اور مستقل بچے رہنا ممکن ہی نہیں۔

یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی

ایک نس ٹس سے مس اور بس

اور جہاں تک دنیا کی اصلاح کا تعلق ہے

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

یہ دنیا ہے ہی ایک امتحان گاہ اور امتحان میں بھلا کوئی کتنا آسودہ ہو سکتا ہے؟ آزمائش مال کی طرف سے نہیں آئی تو اولاد کی طرف سے آجائے گی۔ نوح ؑ ایک پیغمبر تھے۔ بیٹا کفر کی حالت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب مرا۔ آزمائش سے مبرا کوئی نہیں!

تازہ ترین