• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ نے آدمؑ کو جو اسما سکھائے تھے، وہ کیا تھے؟ ہر شے کو ایک نام دینا انسان کی بنیادی صلاحیت ہے۔ کسی بھی چیز سے فائدہ اٹھانے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ اسے نام دیا جائے تاکہ اس پر ریسرچ ہو۔ آج سپر کمپیوٹر کے دور میں، ستاسی لاکھ قسم کی مخلوقات میں سے انیس لاکھ کو انسان نام دے چکا۔

ہومو سیپین یعنی انسان کا جسمانی اسٹرکچرہی ایسا ہےکہ سیدھا کھڑا ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں پہ حکمران نظر آتا ہے۔ چمپنزی اور بن مانس ہاتھ کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عملی طور پر بھی ہومو سیپین نے ہاتھی تک پہ کاٹھی ڈالی۔ فاسلز کا علم البتہ یہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں پندرہ بیس اسپیشیز ایسی گزر چکی ہیں ، جو دو ٹانگوں پہ چلتی تھیں۔ ان میں سے ہومو اریکٹس سب سے زیادہ یعنی بیس لاکھ سال تک زندہ رہے۔ ان میں سے یورپ کا نینڈرتھل مین جسمانی طور پر شاید سب سے زیادہ طاقتور تھا۔

ہوموسیپین کو اس کرہ ارض پہ حکومت کرتے ہوئے تین لاکھ سال ہو چکے۔ ہمارے بزرگ جب دنیا میں نمودار ہوئے اور اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا تو باقی پھر زیرِ زمین چلے گئے۔ ہوموسیپین سے قبل اس جیسی بیس اسپیشیز یکے بعد دیگرے اس زمین پہ پیدا نہ ہوتیں تو ہوموسیپین بھی کبھی پیدا نہ ہو سکتا۔

دوسروں کو ٹھکانے لگانے میں ہومو سیپین صرف اس لیے کامیاب نہیں ہوا کہ وہ زیادہ ذہین تھا۔ منفی خصوصیات بھی بہت تھیں۔ اس نے دوسروں کو تو جو ختم کیا سو کیا، اپنے اندر بھی کم تباہی نہ مچائی۔ ہر معاشرے میں منفی لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور گٹھ جوڑ کر کے مثبت لوگوں کو سولی چڑھا دیتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ پیغمبر تھے، کئی برس جیل میں رہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو پیغمبر ماننے سے انکار کردیا اور انہیں سولی چڑھانے کی کوشش کی۔ رسالت مآب ﷺکو پیغمبر تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ مسلمانوں کا خطرہ اگر نہ ہوتا تو یہودی اس وقت بھی عیسائیوں سے نبرد آزما ہوتے۔ اپنے معاشرے نے بھی رسالت مآب ﷺکو تین سال شعب ابی طالب میں گزارنے پر مجبور کیا۔ عام لوگوں میں سے نیلسن منڈیلا ستائیس سال جیل میں رہے۔ بعض قیدیوں کو حق پر کہنا تو دور کی بات، ان کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔

ہومو سیپین کے انصاف کا عالم دیکھیے۔ یہودیوں کے ساتھ ہٹلر نے زیادتی کی تو عیسائی دنیا نے اس کا حل یہ نکالا کہ فلسطین میں انہیں آباد کر دیا۔ ایٹم بم سمیت دنیا کی جدید جنگی ٹیکنالوجی انہیں فراہم کر دی۔ عیسائیوں کی طرف سے صلیبی جنگوں سمیت مسلمانوں سے تاریخی شکستوں کا بدلہ نہیں تو اور یہ کیا تھا۔ برطانوی سامراج مسئلہ کشمیر پیدا کر کے چلا گیا کہ اب لڑتے رہو، مرتے رہو۔

دنیا بھر کے ہوموسیپین کا نمائندہ ادارہ، جہاں ان کے تنازعات حل کیے جاتے ہیں، اقوام متحدہ ہے۔ یہ ادارہ منافقت کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ کسی بھی ملک کا حق پر ہونا اہم نہیں بلکہ دولت مند، بارسوخ اور جنگی طور پر طاقتور ہونا۔ اسرائیل غزہ پر ایٹم بم بھی دے مارے تو امریکہ ویٹو کی طاقت سے اسرائیل کو بچا لے گا۔ وائیجر ون نامی خلائی مشن نظامِ شمسی کی حدود سے باہر نکل چکی۔ ہوموسیپین کے جھوٹ بولنے کا عالم یہ ہے کہ وائیجر ون پر یہ ریکارڈ کر رکھا ہے کہ ہم ہوموسیپین پر امن مخلوق ہیں۔ ایٹم بم تک ایک دوسرے پر گرا چکے۔ اگر کوئی خلائی مخلوق غلطی سے غزہ یا یوکرین جا اترے تو حیران وہ اس بات پر ہوگی کہ یہ انسان کیسی پر امن مخلوق ہے۔

انسان ایسا پر امن ہے کہ پیوٹن عملاً پورے یورپ اور امریکہ کو نتھ ڈال چکا۔ ابھی چند روز قبل روس پر بڑا حملہ دراصل امریکہ ہی نے کرایا۔ جنگ ختم نہ کرنے پر تنبیہ۔ روس پھر بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ دنیا بھر میں اس وقت اگر صحیح معنوں میں کوئی ہومو سیپین کی نمائندگی کر رہا ہے تو وہ دو انسان ہیں۔ ایک کا نام ہے ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے کا ایلون مسک۔ ایک دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر ہے۔ دوسرا دنیا کا سب سے امیر شخص۔ آج دونوں بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ پاک بھارت جنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا دردِ سر نہیں۔ دو ایٹمی ملک لڑ رہے تھے اور سپر پاور کا صدر اپنی مستی میں گم تھا۔ آج دنیا میں 73کروڑ افراد بھوکے مر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایلون مسک 423ارب ڈالر اکٹھے کر چکا۔ کہاں سے آئی یہ دولت۔ محنت یقیناً کی ہوگی لیکن سب جانتے ہیں کہ دولت مند کو ہوموسیپینز کی یہ دنیا سپورٹ کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کر تا چلا جائے۔ ایوانوں میں کٹھ پتلیاں بھی یہی کھرب پتی نچاتے ہیں۔ ہے کوئی مسک سے پوچھنے والا:

تاج پہنا یا ہے کس کی بے کلاہی نے تجھے

کس کی عریانی نے بخشی ہے تجھے زریں قبا

دنیا کے ہر ملک کا اپنا ایک ایلون مسک ہے۔ اس کا نام بھی کالموں میں لکھا نہیں جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی ہر غلیظ ترین بات کر سکتا ہے۔ کسی نے ٹی وی پر پوچھا: تم میں اور تمہاری بیٹی ایوانکا میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ جواب دیا: جنسی تلذز۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہومو سیپینز کے نمائندہ یہ دو لوگ عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے پورے کرہ ارض کے انسانوں کا بھلا سوچتے۔ عملاً دونوں اپنے نفس کے غلام، اپنے تکبرات، اپنی خواہشات کے نوکر۔ اب ایک دوسرے سے بگڑ گئے۔ ایلون مسک کیوں ٹرمپ کی موجودگی میں اپنے بیٹے کو کندھے پہ سوار کر کے گفتگو کرتا تھا۔ جواب : اپنی طاقت کا مظاہرہ۔ لوگ شیر پال کر اس پر غالب نظر آنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ یہ سب احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ طاقت کے غلام ہیں بلکہ اٹھائی گیرے۔ ٹرمپ کینیڈا کو سبوتا نگلنے کے چکر میں تھا اور یوکرین کی معدنیات تو ڈکار ہی گیا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ٹرمپ اور مسک اپنی تمام تر نام نہاد عظمتوں کے باوجود قبر کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لافانی عظمت کے مالک بننا چاہتے ہیں تو دائمی زندگی حاصل کر کے دکھائیں ورنہ ان جیسی کتنی لاشیں یہ زمین نگل چکی۔

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا

تازہ ترین