• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرعی شعبے پر کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں، آئی ایم ایف کی آشیرباد حاصل، سینیٹر اورنگزیب کی نیوز کانفرنس، دلچسپ جھلکیاں

اسلام آباد (محمد صالح ظافر)بجٹ کے اعدادو شمار مرتب کرتے ہوئے مشاہروں اور مراعات کی راحت رسانی کے لئے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس وقت حکومت کی جیب خالی ہوتی ہے ،مزید قرضے لیکر مشاہرے اور مراعات بڑھائی گئیں تو دوش آے گا کہ قرضوں کا انبار لگا دیا گیا ہے،حکومت نے اپنے اخراجات کے اضافے پر قابو پالیا ہے رواں سال میں کمترین اضافے کا ریکارڈ قائم کر دیا گیا ہے،وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینٹر محمد اورنگ زیب کی بعد از بجٹ نیوز کانفرنس، صحافیوں کے بائیکاٹ سے منظر "تشویشناک " ہو گیا عطا تارڑ بھاگم بھاگ پہنچے اور ٹربل شوٹر کا کردار ادا کیا،طویل ترین پوسٹ بجٹ نیوز کانفرنس ،پارلیمنٹ نے قانون سازی سے محصولات کے اضافے کو یقینی نہ بنا یا تو اہلکاروں کی قوت نافذہ کو بروئے کار لانا ناگزیر ہو گا اسکے ذریعے رواں سال میں چار سو ارب سے زیادہ کے ٹیکس جمع کئے گئے،برآمدات کے فروغ کی خاطر تیس سال میں پہلی مرتبہ برآمدات کے حوالے سے اصلاحات کی گئیں ،زرعی شعبے پر کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا گیا آئی ایم ایف کی آشیرباد حاصل ہے،چھوٹے کاشتکاروں کو آسان قرضے، فراہم کئے جائیں گے بجلی کے بلوں میں کو ئی اضافے سرچارج لگانے کی تجویز زیر غور نہیں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی مرضی کے بغیر کوئی ردوبدل نہیں ہوگا،وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمداوررنگزیب نے اپنی بعد از بجٹ روایتی نیوز کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ حکومت بجٹ کے اعداد وشمار مرتب کرتی ہے تو اسے مشاہروں اور دیگر شعبوں میں رعایات دینے کے لئے قرضوں پرانحصار کرنا پڑتا ہے اس کا سبب آمدن و اخراجات کے تخمینے مرتب کرنے کےبعد حکومت کی جیب خالی ہوتی ہے ایک استفسار کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سہولتوں میں اضافہ کرنے کے لئے مزید قرضے حاصل کرنے پر مجبور ہو نگے پھر کہا جائے گا کہ حکومت قرضوں کا انبار لگارہی ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافے کی رفتار پر قابو پالیا ہےگزشتہ برسوں کے مقابلے میں یہ اضافہ کم ترین سطح پر رہا ہےاس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ کے برابر فروکش سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے ماضی کے حکومتی اخراجات کی تفصیلات بتائیں اور انکشاف کیا کہ زیر تذکرہ مالی سال میں یہ شرح دو فیصد سے بھی کم رہی ان اخر اجات کو ایک اعشاریہ نو فیصد پر لے آیا گیا ہے 2022-23میں یہ اخراجات پندرہ اعشاریہ نو جبکہ اس کے اگلے سال 23اعشاریہ چھ فیصد رہے 24-25ء میں یہ اضافہ بارہ اعشاریہ دو فیصد تھا اب صرف دس اعشاریہ تین فیصد ہے اس میں سات اعشاریہ پانچ فیصد گرانی اور دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ شامل ہے۔ اخراجات میں اس سے بڑھ کر کمی لانا ممکن نہیں تھا اگر کہیں اضافہ ہوا تو وہ ناگزیر تھا۔ ا یف بی آر کے چیئرمین راشد محمد لنگڑیال اور ایف بی آر کے رکن ڈاکٹرنجیب نے بھی وفاقی وزیر خزانہ و محصولات کی اعانت کی جبکہ نیوز کانفرنس کی نظامت وزیر خزانہ کے ڈائریکٹر جنرل حامد رضا وٹو نے کی۔ کانفرنس کی ابتدا میں صحافیوں کے بائیکاٹ نے منظر کو تشویشناک بنادیا جب انہوں نے ایف بی آر کی طرف سے منگل کو ٹیکنیکل بریفنگ کی روایت کو توڑے جانے پر احتجاج کیا جس نےمعاشی خبر نگاروں کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں اس کے باوجود وزیر خزانہ نے اپنا تحمل اور شگفتہ بیان یکا لہجہ برقرار رکھا۔ اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر نے صحافیوں کے بائیکاٹ سے پیدا شدہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے بھاگم بھاگ پہنچ کر ’’ٹربل شوٹر‘‘ کا کردار ادا کیا اور ان کی مداخلت سے صحافی واپس آگئے بعد ازاں سینیٹر محمد اورنگزیب نے اعلان کیا کہ وہ اور ایف بی آر کے چیئرمین آئندہ ہر چار چھ ہفتے بعد ذرائع ابلاغ کے سامنے آئیں گے اور لگاتار بنیادوں پر معاشی صورتحال سےعوام کو آگاہ رکھیں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وہ رواں برس بھی اس پر کاربند رہے ان کا کہنا تھا کہ روایات پر عمل کرنا اچھا ہے تاہم کبھی کبھی روایت شکنی بھی ہونی چاہئے جہاں کوئی نقصان نہ ہوتا ہو۔

اہم خبریں سے مزید