طاقت کا خمار وہ برائی ہے جو بیشمار غلط فیصلوں کا باعث بنتی ہے۔ جب یہ خمار جنون میں ڈھل جائے تو دانش اور خیر مغلوب بنا دیے جاتے ہیں ، انسان طاقت کے برجوں کے گرنے کی تاریخ پڑھ کر بھی باز نہیں آتا اور وہی غلطیاں دہراتا رہتا ہے جنکی وجہ سے ماضی میں انسانیت ملیامیٹ ہوئی ۔اپنے اندر موجود خیر اور شر کی طاقتوں سے صاحبِ اختیار انسان نے ایک جیسا استفادہ نہیں کیا، حالانکہ ان دونوں کو بھی فلاح میں استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے زہر سے بھی جان بچانے والی دوا بنائی جا سکتی ہے۔ خود کو کنٹرول نہ کر سکنے والے نے دوسروں کو قابو کرنےکیلئے اپنی صلاحیتوں کو منفی اور شر انگیز کردار میں ڈھال کر زیادہ برتاہے، اس کی ترجیح دیکھئے کہ ہماری تاریخ امن کی بجائے جنگ کے زمانوں کے حوالے سے ترتیب دی گئی ہے، ایسا نہیں کہ امن کے ادوار نہیں گزرے مگر ان کا تذکرہ نہیں کیا جاتا نہ امتحانوں میں سوال پوچھا جاتاہے نہ اْس کی تحسین کی جاتی ہے ۔ساری بحث صرف ہار جیت کے اسباب کے گرد گھومتی رہتی ہے۔جس طرح کسی کی اچھائی خبر نہیں بنتی برا عمل وائرل ہوتا ہے ، تربیت ، تعلیم اور ماحول انسان کی ازلی جبلت کو بدلنے میں اب تک ناکام ہیں۔کتابوں میں کل دنیا کے انسانوں کو ایک آدم کی اولاد ہونے کے باعث ایک برادری کہا جاتا ہے مگر عملاََ وہ عقیدوں ، نسلوں ، ملکوں اور قوموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ہر کوئی خود کو برتر سمجھتا ہے اور اپنے طریقے سے نظام چلانے کی خواہش رکھتاہے ، یہی خواہش جارحانہ رویے کو جنم دیتی ہے ، اسی کے باعث دنیا آج ایک نازک ترین دور سے گزر رہی ہے جہاں طاقت کی ہوس، اسلحے کی دوڑ اور قومی برتری کے جنون نے پوری انسانی برادری کیساتھ ساتھ دھرتی کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ڈرون ، میزائل ٹیکنالوجی نے طاقت کے توازن کو بْری طرح متاثر کیاہے، اسلئے اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کی دھن میں چھوٹے بڑے سب ملک ایٹمی، کیمیائی اور دیگر مہلک ہتھیاروںکے انبار لگانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ شام، یمن، غزہ، یوکرین اور دیگر علاقوں کی تباہی اس امر کا ثبوت ہے کہ جنگیں صرف شکست یا فتح نہیں، تباہی اور انسانی المیے کا دوسرا نام ہیں۔فکر کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بااثر رہنما اور خصوصا سپر پاور ممالک مذاکرات اور انصاف کی راہ اپنانے کی طرف مائل نہیںہیں۔اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل سوچیں جو نوجوان نسل کو انسانیت کے احترام ، بقا ، برداشت، اور محبت سے جوڑنے میں معاون ہو۔اس وقت پوری دنیا کا منظرنامہ بدامنی اور خوف کے دھوئیں سے دھندلا چکاہے۔غزہ میں کئی مہینوں سے جاری بمباری میں معصوم بچوں کی ادھڑی لاشیں دیکھ کرہر حساس دل رنجیدہ ہے ۔مسلسل رنجیدگی دنیا سے بیزاری کا باعث بنتی ہے ، اب ایران اور اسرائیل کی جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ہر صبح میڈیا پر عمارتوں کے مسمار ہونے اور انسانوں کے ہلاک ہونے کے دلدوز منظر ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔وہ دھرتی جس کا وظیفہ سبزہ اور نعمتیں جنم دینا ہے پر بارود کے مسلسل چھڑکاؤ نے بانجھ پن کی نحوست طاری کر رکھی ہے۔بے شمار سہولیات اور آسائشات کے باوجود قرار مفقودہو چکا ہے ۔بے یقینی کے ماحول میں پروان چڑھی نئی نسل مایوسی کا شکارہو کر بے عملی کی جانب راغب ہے ۔ حکمرانوں سے امن کی توقع کرنے کی بجائے تمام ملکوں کے لوگوں کو جنون کے خاتمے اور امن کیلئے کام کرنا چاہیے ، کوئی ایک ملک پرامن ہو کر مقاصد حاصل نہیں کر سکتا ۔اس گلوبل ویلیج کی ہر قوم کے باشعور افراد کو ایک فکری پلیٹ فارم پر جمع ہو کر لوگوں کی توجہ پر دستک دینی چاہئے اور کوئی اخلاقی ضابطہ بنانا چاہئے۔ اگر ہم نے جنگی جنون کو نہ روکا تو وہ دن دور نہیں جب ڈرون پٹاخوں کی حیثیت اختیار کر لیں گے،طاقتور ملک ذرا سی چپقلش پر اپنے مخالفین پر میزائل داغنے لگیں گے ، ہمارے ارد گرد کٹے پھٹے ، زخمی وجودہماری اذیتوں کو بڑھا کرہمیں پاگل کر دیں گے اور زمین واقعی انسانوں کیلئے جہنم بن جائے گی۔ایک ایسی دنیا جہاں زندگی تو ہوگی، مگر انسانیت نہ ہو گی ۔اس سے پہلے ہمیں امن کی کوشش کرنی ہے۔آخر میں وسیم قمر عدیل کےشعری مجموعے ، محبت میں خسارا کیا ،سےچند اشعار
جیسے ملاح کناروں کی طرف دیکھتےہیں/ہم زمیں زاد ستاروں کی طرف دیکھتے ہیں/زرد موسم کی قبا اوڑھنے والےمنظر /بڑی حسرت سے بہاروں کی طرف دیکھتے ہیں/آج بھی مہرو مروت کا بھرم ہے ہم سے /تِیر کھاتے ہیں تو یاروں کی طرف دیکھتے ہیں