آرزو سےکم سفر نصیب ہوتا ہے، سو جب بھی موقع ملے کوشش ہوتی ہے کہ ضائع نہ ہونے پائے۔ تو بس یوں ہوا کہ کچھ اصحاب اور تنظیموں نے امریکا آنے کی دعوت دی اور ہم نے بنا کسی حیل و حجت کے قبول کر لی۔ امریکا شریف کی زیارت کا شرف تو پہلے بھی کئی بار حاصل ہوا مگر یہ دعوت بہ وجوہ اپنی نوع کی پہلی تھی یعنی ہمیں بہ طور شاعر مختلف تقریبات کیلئے مدعو کیا جا رہا تھا، سفر و قیام کا اہتمام کیا جا رہا تھا اور معقول مشاہرے کی نوید دی جا رہی تھی، اور اس سب کے بدلے ہمیں کیا کرنا تھا؟ شعر سنانے تھے۔ جب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ گویوں کو گانے کا معاوضہ ملتا ہے تو رشک آتا ہے کہ انہیں اس کام کے پیسے مل رہے ہیں جو انہیں بہ ہر حال مرغوب ہے، اگر آپ انہیں معاوضہ ادا کر کے نہیں بلائیں گے تو وہ بیٹھکوں میں، دوستوں میں یا اکیلے میں بیٹھ کر گانا ہی گائیں گے کہ یہی ان کی زندگی ہے۔ شاعروں کا بھی ہو بہ ہو یہی معاملہ ہے۔ شاعر تو اپنی شاعری سنانا چاہتے ہیں، شعر کی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ اور اگر لوگ جتن کر کے کسی شاعر کے شعر سننا چاہ رہے ہوں تو...سبحان اللہ۔ یہ صورتِ احوال سراسر باعثِ انبساط ہے۔تارکینِ وطن کی نسبت سے، ٹرمپ صاحب کی پالیسیوں کی برکت سے امریکا آنے جانے والوں کی تعداد میں ان دنوں کچھ کمی آ چکی ہے، نتیجہ یہ ہےکہ آج کل ہوائی جہازوں کی ٹکٹیں برائے امریکا نسبتاً ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ بہرحال، یہ مشاعرہ منتظمین کے مسائل ہیں۔ خلیج کی ایک ائر لائن پر امریکی امیگریشن کا مرحلہ ان کے ملک میں ہی طے ہو جاتا ہے، مسافر کے قانونی حقوق کے حوالے سے یہ خطہ مثالی نہیں سمجھا جاتا، میرا سابقہ تجربہ بھی کوئی بہت خوش گوار نہیں رہا تھا، سو میں نے ٹرکش ائر لائن کا انتخاب کیا۔ امریکا میں ان مشاعروں کی دعوت فوراً قبول کرنے کا ایک اور سبب بھی تھا۔ معروف شاعر حضرتِ عباس تابش ہمارے ہم رکاب تھے، بلکہ یوں کہیے کہ ہم ان کے ہمراہ تھے۔ تابش صاحب سے سفر کیلئے ائر لائن کے انتخاب پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا میں توخلیج کی اسی ائر لائن پر جاؤں گا جس کی امیگریشن ان کے اپنے ملک میں ہی ہو جاتی ہے، اس فیصلے کے حسن و قبح ان کے گوش گزار کیے گئے مگر وہ اس باب میں انشراحِ صدر حاصل کر چکے تھے، ان سے اس تیقن کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے ’’اگر ڈی پورٹ ہو گیا تو دو تین گھنٹوں میں آرام سے گھر واپس پہنچ جاؤں گا۔‘‘ اس مسکت دلیل نے ہمیں خاموش کر دیا۔ ہمارے لیے ترکیےائر لائن کا تجربہ انتہائی خوش گوار رہا۔ اچھے جہاز، اچھی سروس، اور بہت اچھے میزبان جنہیں دیکھ کر ’’رشکِ چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن‘‘ جیسی تراکیب کا عطر آپ پر منکشف ہو جاتا ہے۔ فہمی بدایونی کا شعر ہے ’’شہر کا شہر خوب صورت ہے...آپ کیا ہر مکاں میں رہتے ہیں۔‘‘ ایک فضائی میزبان نور سے پوچھا گیا کہ کیا ترکی کے سب لوگ اتنے ہی خوب صورت ہوتے ہیں، مسکرا کہ کہنے لگیں کہ ترکوں کی اکثریت پْر جمال ہے مگر ہم کچھ زیادہ ہی حسین ہیں، پھر سنجیدگی سے ائر لائن میں نوکری کیلئے درکار کوائف و وظائف پر روشنی ڈالنے لگیں، ہم انکی کچھ باتیں سْن پائے، کچھ چشمِ فسوں کار کی نذر ہو گئیں۔ آج کل امریکا کی فضا کچھ ایسی ہے کہ سب آنے والے مسافر امریکی امیگریشن عملے کی جانب سے ماضی کی نسبت سخت رویے کا اندیشہ محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا تجربہ بہرحال خوش گوار رہا۔ سفر کی غایت اور مدتِ قیام بارے دو سوال ہوئے اور دو منٹ میں ہم ایئرپورٹ سے باہر نکل آئے۔ امریکا ہم شعر پڑھنے آئے ہیں، اسی سے آپ ہماری ہلکی پھلکی دماغی کیفیت کا اندازہ لگا لیجیے۔ داد وصول کرنے میں آخر کتنا دماغ صرف ہو سکتا ہے۔ لیکن سر زمینِ امریکا پر پہنچتے ہی پہلی خبر یہ ملی کہ اسرائیل عالمِ مشرق کے جنیوا پر حملہ آور ہو چکا ہے، بہانہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا قلع قمع کرنا ہے، مگر اہلِ نظر کا اصرار ہے کہ اصل مقصد ایران میں رجیم چینج اور خطے کا نیا نقشہ ترتیب دینا ہے۔ امریکا کچھ دن جنگ سے دور رہنے کی اداکاری کرنے کے بعد اسرائیل کے حق میں بے نیام ہو چکا ہے۔ پاکستان بھارت جنگ کے آغاز میں بھی امریکا کا رویہ بہ ظاہر غیر جانب دارانہ تھا، مگر پاکستان کا پلڑا بھاری ہوتے ہی امریکا نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا تھا، ایران اسرائیل جنگ میں بھی ٹرمپ صاحب کی لگ بھگ یہی پالیسی تھی مگر جنگ میں اسرائیل کی کامیابیوں کے ساتھ ہی ٹرمپ صاحب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ پاک بھارت جنگ اسکرپٹ سے ہٹ گئی تھی، ایران اسرائیل جنگ اسکرپٹ کے مطابق چل رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ووٹروں کو بتایا تھا کہ وہ جنگ دشمن ہیں، دنیا میں ہر تنازع کا حل چاہتے ہیں، اور ہر جنگ میں سیز فائر چاہتے ہیں۔ مگر اب ان کا خیال ہے کہ انکے پاس سیز فائر سے بھی بہتر حل موجود ہیں۔ امریکا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جنگ مخالف ہے، مگر یہاں ہراس کی فضا کچھ ایسی بن چکی ہے کہ جنگ مخالف افراد اپنی رائے کے اظہار سے ہچکچا رہے ہیں، بالخصوص تارکینِ وطن کہ انکے سر پر پہلے ہی کئی تلواریں لٹک رہی ہیں۔ ٹرمپ کا حامی فوکس نیوز دیکھ کر بہت آسانی سے یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ امریکا ایرانی حکومت کے خاتمے کا تہیہ کر چکا ہے۔ ہماری اس ذہنی فضا کا نتیجہ ہے کہ پہلی غزل جو ہم نے امریکا کی سرزمین پر دوستوں کو سنائی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔
اپنے پیاروں کو میں اٹھا لایا
سر الگ اور دھڑ جدا لایا
جانِ بابا خدارا آنکھیں کھول
دیکھ تیرے لیے میں کیا لایا