• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑی خبر یہ ہے کہ میرے والد ہارون الرشید صاحب کے کالموں کا مجموعہ ’’ناتمام‘‘ شائع ہو چکا ہے۔

2008ء میں والد صاحب کے کالم پہلی بار کمپوز ہونا شروع ہوئے۔ چالیس منٹ میں وہ چار صفحات پر مشتمل کالم لکھ دیا کرتے۔ تاریخی حوالوں کے ساتھ برق رفتاری سے لکھی گئی یہ تحریر اکثر نثر نگاری کا نمونہ ہوا کرتی۔ مسودہ لکھ دینا تو کھیل کا صرف آغاز ہوتا۔ تین بار اس میں بہتری لائی جاتی۔ دو گھنٹے کی مشقت سے ایک ماسٹر پیس تیار ہوتا، عشاق جسکے منتظر ہوتے۔

خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ء تر کی صورت

اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ یہ صرف کالم نگاری نہیں تھی۔ والدِ گرامی کی آنکھوں میں ایک خواب تھا کہ اقبال اور قائدِ اعظم کے پاکستان کو اپنی آنکھوں کے سامنے وہ ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتا دیکھیں۔ اکثر اخبار نویسوں کے برعکس ان میں غیر جانبداری ثابت کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کے راستے پر تھے۔ اس بارے میں انہیں کوئی شک نہیں تھا کہ دولت کا طواف کرتی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی لیڈر شپ حل کا نہیں، مسئلے کا حصہ ہے۔ ایک نیا لیڈر چاہئے، جو دولت کا بھوکا نہ ہو۔

جن برسوں میں والدِ گرامی نے الطاف حسین سے تنِ تنہا ایک خوفناک جنگ لڑی، ان دنوں ایک لفظ الطاف حسین کے خلاف بولنا ممکن نہ تھا۔ کراچی میں اُس ٹی وی چینل کی نشریات بند کر دی جاتیں ، جو تنقید کا مرتکب ہوتا۔ بعد ازاں، جب الطاف حسین پر زوال آیا تو گِدھ اکھٹے ہو گئے۔

اب سوچتا ہوں کہ پانچ دہائیوں پہ پھیلی ہوئی اس داستان کا کون کون سا قصہ بیان کروں؟

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے

نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں

جنرل اشفاق پرویز کیانی سے والد صاحب کی خوب دوستی رہی۔ جنرل صاحب بڑے ظرف والے آدمی ہیں ۔ وکی لیکس میں انکشاف ہوا کہ جنرل کیانی نے امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن سے کہا کہ اسفند یار ولی خان صدر بننے کیلئے موزوں ہیں۔ والد صاحب نے دوستی ایک طرف رکھ کر اس پر کالم لکھا۔ ’’بروٹس یو ٹو؟ ‘‘ کے وزن پر اس کالم کا عنوان تھا : General Kayani you too?۔ جنرل کیانی کی برداشت کا عالم یہ تھا کہ آرمی چیف ہوتے ہوئے یہ کالم گوارا کیا۔ وضاحت کی کہ امریکی سفیر کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اسفند یار ولی کو صدر بنوانے میں مجھے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ان دنوں جنرل کیانی کو جس چیز نے زچ کرکے رکھ دیا تھا، وہ یہ تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستانی فوج پہ ڈالنا چاہتا تھا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور امریکی سفیر سمیت انکے چار بڑے فرعونوں کی طرح ہوائی جہاز سے اترتے تھے۔ چیختے، چارج شیٹ لہراتے اور دھمکیاں دیتے۔

عالمی طاقت کو یہ باور کرانا بہت مشکل تھا کہ اپنی شکست کی ذمہ دار وہ خود ہے۔ انہی دنوں امریکہ نے حملہ کر کے سلالہ میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔ نیٹو سپلائی چھ مہینے بند کر دی گئی۔ سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن ہوئے۔ امریکہ شدید دبائو ڈال رہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے، جہاں سے افغانستان میں حملے ہوتے تھے، پاکستانی قوم شمالی وزیرستان آپریشن کی شدید مخالف تھی۔ جنرل کیانی نے اس پر کہا: پاکستانی فوج وقت آنے پر اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے گی، امریکی دبائو پر نہیں۔

وہ وقت گزر گیا۔ لکھنے والوں کا ہر سچا جھوٹا طنز برداشت کیا گیا۔ آسٹریلیا میں ایک نادیدہ جزیرے کے جنرل کیانی مالک ہیں، جس کا محل وقوع آج تک سامنے نہ آسکا۔ یہ سب برداشت کیا گیا۔

آج لکھنے والا کیا لکھے؟ قلم کو دیکھ کر شرمندہ ہی ہو سکتاہے۔بات لمبی ہو گئی۔ وقت گزرتا گیا، والد صاحب کے کالموں کا مجموعہ نہ چھپ سکا۔ تحریر کے معاملے میں جو معیار اور کاملیت وہ چاہتے تھے، انکی مصروفیات اور صحت اسکی اجازت نہ دیتی تھیں اور اب بھی نہیں دیتیں۔ ان حالات میں، مجھے ہی بروئے کار آنا پڑا۔ سیاست تو ظاہر ہے کہ کالم نگار کا موضوع ہوتی ہی ہے لیکن میں نے بہت سی لافانی تحریریں بھی اکھٹی کیں۔ تصوف اور صوفیا پر باقی رہنے والی تحریر ’’شغل بیکار ہیں سب ان کی محبت کے سوا‘‘ اور ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کا نعرہ لگاتے علامہ طاہر القادری کے بارے میں پیشین گوئی کہ وہ ناکام رہیں گے۔ اس موقع پر علامہ کو برا بھلا کہتے کہتے جسٹس افتخار چوہدری نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی رگید ڈالا تھا، جس کا انہیں بہت دکھ ہوا تھا۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اور کارناموں پر کالم ’’آہنگ میں یکتا صفت سورۃ رحمٰن‘‘ 2013ء میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو کالم لکھا کہ میاں صاحب اتنی لمبی سیاسی زندگی میں کچھ بھی سیکھ نہیں سکے۔ ’’سید الطائفہ‘‘ ایک کالم ہے، جس میں سلطان باہو کا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور صوفی سمجھے جانے والے دوسرے شعرا کے ساتھ موازنہ ہے۔ دسمبر 2014ءمیں پیشین گوئی کی کہ شیخ حسینہ کا جبر بنگلہ دیش سے ختم ہو کر رہے گا۔ جولائی 2014ء میں پیشین گوئی کی کہ چوہدری نثار کا اب نون لیگ میں کوئی مستقبل نہیں۔ پھر تحریر کے اصولوں اور اپنی صحافتی کیرئیر پر ایک کالم لکھا ’’امید پہ دنیا قائم ہے‘‘ قاضی حسین احمد کی وفات پر لکھا ’’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا‘‘

تازہ ترین