• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دنیا دیکھے گی آئندہ چند دنوں میں اہم ترین تبدیلیاں رونما ہوں گی‘‘ اور پھر اگلے ہی روز دنیا نے دیکھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ہونے والی تاریخی ملاقات اوران کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کے بعد معجزے رونما ہونےلگے۔ امریکی صدر ٹرمپ جو پہلے ایران کو دھمکیاں دے رہے تھے اچانک یہ کہتے دکھائی دیئے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت ہورہی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا شکریہ کہ وہ جنگ کی طرف نہیں گئے۔ میں نے انہیں بھارت کے خلاف جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کیلئے مدعو کیا تھا۔ اس تاریخی ملاقات کے بعد ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان ایران کو دیگر لوگوں (ممالک) کے مقابلے میں زیادہ بہتر جانتا ہے۔ وہ اس صورت حال پر خوش نہیں ہیں۔ وہ یہ کہتے بھی دکھائی دیئے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ وہ اب بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس ملاقات سے قبل جس یقین کا اظہار کیا تھا دنیا نے دیکھا کہ اگلے ہی لمحے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ایران کے وزرائےخارجہ کے درمیان ایٹمی مسئلے پر جنیوا میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی۔ ان ممکنہ مذاکرات کے ساتھ ہی ایران کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ۔ اس درخواست کو پاکستان، روس، چین کی حمایت حاصل ہے۔ ایک ہی دن میں ایران اسرائیل جنگ بارے دو اہم ترین بیٹھکوں پر امریکہ بھی پوری طرح آمادہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر امن کے پیامبر بن کر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے۔ طے شدہ ایک گھنٹے کی ملاقات دو گھنٹے طویل ہوگئی۔ انہوں نے امریکی قیادت کو پاک بھارت جنگ کے بعد ایران، اسرائیل جنگ کے عالمی سیاست بالخصوص جنوبی ایشیا میں ممکنہ سنگین اثرات، اس کے صدر ٹرمپ کی سیاست اور امریکہ کی عالمی منظرنامے میں کمزور ہوتی پوزیشن بارے کیا رائے دی ہوگی؟ حتمی طورپر کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن یہ ایک مدبر لیڈر کی خوب صورت سفارت کاری کی روشن مثال ہے جس کی تفصیلات جب سامنے آئیں گی تو یقیناًامن قائم رکھنے کی موجودہ کوششوںمیں ان کا کردار سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ جو کام دنیا میں کوئی نہ کرسکا وہ ایک اعلیٰ عسکری قائدنے کر دکھایا ۔ اللہ تیری شان! ہم دس مئی کو بھارتی حملے سے قبل دنیا میں کہاں کھڑے تھے۔ مودی کی ایک خود ساختہ حماقت نے پاکستان کو اپنی اعلیٰ ترین دفاعی و قائدانہ صلاحیت دکھانے کا بہترین موقع فراہم کر دیا اور ہم نے اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے مودی سرکار کی نام نہاد علاقائی برتری کے دعوؤں کو خاک میں ملا دیا۔ قدرت نے کچھ ایسا ہی موقع ایران کو بھی دیا ہے کہ اس جنگ کی ابتدا میں ایران کو مذاکرات کے دھوکے میں رکھ کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ مودی ہو یا نیتن یاہو دونوں ہی اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ پاکستان اور ایران اپنی معاشی کمزوریوں، عالمی پابندیوں، داخلی و سیاسی انتشار وتقسیم کے باعث اس حد تک کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ امریکہ کی پشت پناہی اوراپنی عسکری برتری کے نشے میں دونوںبرادر اسلامی ہمسایہ ملکوں کو تر نوالہ بنا ڈالیں گے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ دونوں کردار امریکہ کیلئے بھاڑے کے ٹٹوثابت ہوئے۔ اب تو مغربی میڈیا اسرائیلی رائے عامہ کی ترجمانی کے باوجود اس بات پر قائل نظر آتا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی سیاست بچانے کیلئے امریکہ کو کھلا دھوکہ دیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ بھارت کے خلاف جنگ میں کامیابی انسانی صلاحیتوں سے زیادہ اللہ کی جانب سے ایک معجزہ تھا۔ اللہ تیری شان! دنیا کا حساب دنیا میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عجزو انکساری اور ایمان والوں کو کبھی زوال نہیں۔ پاکستان کے بعد ایران نے جو کچھ کر دکھایا ہے یہ مسلم دشمنوں سے قدرت کا ایسا انتقام ہے جس کی مثال رہتی دنیا تک دی جائے گی۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ چینی صدر کا ٹرمپ کو یہ عاجزانہ پیغام کہ آگ پر تیل چھڑکنے سے باز رہو۔ اگر امریکہ دنیا کا احترام کھو بیٹھا تو ماضی کی زوال پذیر عظیم سلطنتوں کی طرح سبق سیکھے گا۔ دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ سو سال پہلے برطانوی سلطنت چھائی ہوئی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا سورج کبھی نہیں ڈھلے گا۔ دو سوسال پہلے نپولین خود کو لازوال قرار دیتا تھا۔ چار سو سال پہلے ہسپانوی بادشاہ سمجھتے تھے کہ ان کی عزت ہمیشہ باقی رہے گی لیکن خود کو ناگزیر سمجھنے والی ہر سلطنت کا سورج غروب ہوا۔ یقیناًہم امریکی قیادت کو یہ سمجھانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے تجارت سے امن کے نعرے کو عملی جامہ پہنائیں۔ دنیا کو بھارت اور اسرائیل سے آگے دیکھیں۔ مودی ، نیتن یاہو جیسے احمق امریکی مفادات کواپنی سازشوں سے کس طرح نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ملاقات میںامریکی قیادت کو یہ احساس بھی دلایا گیا ہوگا کہ ایران کے ساتھ بہترین تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرنے میں جو کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے۔ وہ کسی مودی یا نیتن یاہو کے بس کی بات نہیں۔ ٹرمپ اگر پاکستانیوں سے پیار کرتے ہیں تو دشمن ہم بھی نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

تازہ ترین