• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی ایٹمی تنصیبات پہ امریکی حملے ، آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان ، آگے کیا ہونے والا ہے ۔

بہر لحظہ ، بہر ساعت ، بہر دم

دگرگوں می شود احوالِ عالم

ہر گزرتے پل کے ساتھ، یہ دنیا بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ آج عالمی طاقت امریکہ کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے ، جو چالاکی کے سوا کوئی ہنر نہیں رکھتا۔ اس حملے سے پہلے عشروں ایران کو معاشی پابندیوں سے گزارا گیا۔ ایران ہو، شمالی کوریا ، افغانستان یا عراق، کسی خطہ ء ارض کو حملہ کر کے جوہری طور پراسے بدلا نہیں جا سکتا، خصوصاً جب وہ پابندیاں برداشت کرنے کا عادی ہو ۔افغانستان میں تو فوج اتار کے اور بیس سال جنگ کر کے بھی اسے بدلا نہ جا سکا۔ آج اگر ایران جنگ روک دے تو کیا اسرائیل کیلئے خطرہ ختم ہو جائیگا ؟ وہ بھی اسرائیلی شہروں میں تباہی و بربادی کے بعد ۔

ایرانی حکومت گرادی جائے تو کیا ہوگا؟ ایک بڑی زبردست گوریلا جنگ ۔روس شام جا کر بمباری کر سکتاہے تو ایرانی ملیشیاز کو کیوں سپورٹ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل سے ساڑھے تین سو مربع میل کا غزہ سنبھالا نہیں جا رہا ، کیا وہ ساڑھے چھ لاکھ مربع میل پہ پھیلی دلدل کا متحمل ہو سکتاہے ، جو حزب اللّٰہ ، حماس اور دوسرے جنگجوئوں کے ساتھ رابطےمیں ہو ۔ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر کے امریکہ نے اپنی طرف سے ایک حل نکالاہے ، جس پریہ جنگ ختم ہو جائے ۔سب کو فیس سیونگ مل جائے۔

آبنائے ہرمز اگر بند ہو رہی ہے تو پوری دنیا امریکی حملوں کا مزہ چکھنے والی ہے ۔ رہا ایران تو وہ کہیں بھی نہیں جا رہا۔وہ دوبارہ ایٹمی تنصیبات بنا لے گا۔ یا تو امریکہ ہر سال ٹائم نکال کے بمباری کر جایا کرے ۔ طیب اردوان اور پاکستان سمیت جتنے بھی مسلمان حکمرانوں نے ایران کے ساتھ یکجہتی دکھائی ، وہ صرف زبانی جمع خرچ تھی ۔ جس طرح ڈربے میں بند مرغیاں ذبح ہوتی ہوئی مرغی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہی ہوں ۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو یعنی ہومو سیپین کو تین لاکھ سال ہو چکے ہیں ۔آج اقوامِ متحدہ کا حال یہ ہے کہ پانچ برتر ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر پوری انسانیت کسی نکتے پر متفق ہو تو پھر بھی وہ اسے ویٹو کر سکتے ہیں ۔چھ دفعہ امریکہ نے غزہ جنگ روکنے کی قرار داد ویٹو کی ۔ وہی امریکی صدر اب امن کے نوبل انعام کا خواہش مند ہے ۔

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی

جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی

امریکی صدر کا حال یہ ہے کہ اصلاً وہ ایک اٹھائی گیرا ہے۔ کوئی اصول ہے ہی نہیں ۔ایک منٹ میں اپنی بات سے پھر جاتا ہے ۔اصول اس کا صرف ایک ہے کہ جو ہتھیانے کا موقع ملے ،ہتھیا لو ۔یوکرین کے بعد اب نظر پاکستانی معدنیات پر ہے ۔

لیبیا، عراق ، افغانستان ، شام، ایران ، جہاں ، جس مسلمان ملک میں بھی کوئی بحران کھڑا ہوا، عیسائی ممالک بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔

یہودیوں کا حال بھی آپ کے سامنے ہے ۔ دنیا کی سب سے زیادہ جارح قوم۔ قرآن میں بنی اسرائیل کے واقعات پڑھتے ہوئے حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتاہے ۔غزہ میں اپنی آنکھوں سے ہم نے دیکھ لیا ۔

بچوں اور عورتوں کی قاتل یہ عالمی شخصیات سکون کی نیند کیسے سوتی ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکیوں سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے اکثرباشندے ذہنی طور پر یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ اگر وہ مذہبی رسومات پہ عمل کرتے ہیں تو صرف رسم و رواج کے طور پر ۔

ہومو سیپینز کی منافقت اور جھوٹ بولنے کا حال یہ ہے کہ ابھی ایک ہفتہ قبل جی سیون ممالک کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی ، جاپان ، برطانیہ اور سب سے بڑھ کر امریکی سربراہان اکٹھے ہوئے ۔ متفقہ طور پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایران دراصل قصوروار ہے ۔وہ ملک قصوروار ہے ، جس پر حملہ ہوا ہے ۔وہ اس لیے قصوروار ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے اور جو ملک ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے اورہمہ وقت قتل و غارت میں مشغول رہتاہے یعنی اسرائیل ، وہ بے گناہ ہے ۔

یہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے جاپان نے یہ بھی نہیں سوچا کہ امریکہ نے اس پر دو ایٹم بم گرائے تھے ۔ انصاف کی کہیں کوئی رمق نہیں ۔روس کو 2014ءمیں انہوں نے اپنے درمیان سے نکال دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ یورپ اور امریکہ کا باجگزار بننے کی بجائے اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرنا چاہتاہے ۔ چین یہ فیصلہ کر چکا ہےکہ اقوامِ عالم میں وہ امریکہ کو نیچا دکھا کے چھوڑے گا ۔ اسرائیل امریکہ کی مدد مانگ رہا ہے تو دراصل یہ ایک ملک دوسرے ملک سے مدد نہیں مانگ رہا بلکہ یہودی عیسائیوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ دونوں مل کر مسلمانوں کو کچل دیں ۔اب صرف پاکستان اور ترکی باقی رہ گئے ہیں اور دونوں لیپا پوتی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کو مشترکہ خطرہ سمجھتے ہیں ۔صلیبی جنگیں لڑتے رہے ہیں ۔ ایک ایک کرکے مضبوط افواج رکھنے والے مسلم ممالک کو تباہ کر رہے ہیں ۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو پیغمبر تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انہیں سولی چڑھانے کی کوشش کی۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسالت مآب ﷺکو پیغمبر تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔آخری پیغمبرکو دنیا سے گزرے ہوئے چودہ صدیاں گزر چکیں۔ مسلمانوں ، عیسائیوں ، یہودیوں اور بت پرستوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہو کر رہنا ہے ۔ باقی سب لیپا پوتی ہے۔

تازہ ترین