• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ایئرپورٹ کے بعد سب سے زیادہ ہمیں جس ایئرپورٹ پر اترنے کا اتفاق ہوا وہ واشنگٹن ڈی سی کا ڈلس ایئرپورٹ ہے۔ واشنگٹن کتنی بار آنا ہوا ہے اسکا درست جواب دینےکیلئے آدھی درجن سے زائد پاسپورٹوں کا بالاستعیاب مطالعہ درکار ہے۔ پہلے میرے ہم زلف افتخار حسین یہاں پاکستان ایمبیسی میں ملازمت کرتے تھے، پھر ہماری پیاری بہن بانو یہاں ہیں اور اب ہماری بیٹی تعبیر بھی یہاں آباد ہے۔ ہمیشہ یہی احساس رہا کہ ہمارا ایک گھر ڈی سی میں بھی ہے۔

امریکہ کے بیشتر سفر ہم نے بیگم صاحبہ کے نائب و معاون کے طور پر کیے، وہ کپڑوں کا کاروبار کرتی تھیں، انکے ہم راہ بہت سے سوٹ کیس ہوتے تھے، اور سوٹ کیسوں کے ہم راہ ہم اور ہماری بیٹیاں۔ دہائیوں سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کا ہمارا یہی بندوبست رہا۔

یہ سرزمینِ امکانات کا ہمارا پہلا سفر ہے جو مختلف ادبی اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر ہو رہا ہے، سو ہم ہیں، ایک چھوٹا سا بقچہ ہے اور امریکہ کی مختلف ریاستیں۔ ایک بات جو ذہن میں چل رہی ہے پہلے وہ کر لیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ایک کتابوں کی دکان ہے، کریمرز، یہاں ہماری دلچسپی کی کئی نادر کتب ہمیشہ دستیاب ہوتی ہیں، سو اس بار بھی ہم نے پہلی حاضری یہیں دی۔ کچھ کتب خریدی گئیں جن میں ہنری کسنجر (شریک مصنف) کی "The Age of Ai اور ہم انسانوں کا مستقبل بھی" شامل تھی۔ ابھی کتاب کے سو صفحات پڑھے ہیں اور ایک نکتہ مسلسل سر پہ سوار ہے، سوچا دوستوں کو بھی شامل کیا جائے۔ فرماتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے سب بڑے بڑے انقلابات مصنوعی ذہانت کے انقلاب آگے ہیچ ہیں، مغرب کی تہذیبِ نو کی بنیاد لگ بھگ پانچ سو سال پہلے رینے ساں کو مانا جاتا ہے، جسے فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ نے ایک فقرے میں سمو دیا،

I think therefore I am

یعنی عقل کی حکمرانی اس تہذیب کی بنیاد قرار پائی، ان صدیوں میں جو بھی خیر بانٹا گیا یا شر پھیلا یہ سب انسانی عقل اور کاوش کا شاخسانہ تھا۔ لیکن تاریخ کا یہ دور اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے یہ بنیاد ڈھا دی ہے۔ انسان اب فیصلہ ساز نہیں رہا۔ انسان اشرف المخلوقات نہیں رہا۔ ذہانت کے اعتبار سے اب انسان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اب اس زمین کا ہر بڑا اور چھوٹا فیصلہ مصنوعی ذہانت کرئیگی، الگورتھم کریں گے، حضرتِ انسان نہیں کریں گے۔ تفصیل کی جا نہیں، مقصد موضوع چکھانا تھا۔

پہلے مشاعرے میں شرکت کیلئے ہم ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ پہنچے جہاں ہمارا استقبال ایک نوجوان خاتون نے کیا جو مشاعرہ کی مرکزی منتظم تھیں، گفتگو آغاز ہوئی تو ان کی میٹھی زبان اور شائستہ لہجے سے گمان گزرا کہ امروہہ یا لکھنؤ سے آج کل میں ہی تشریف لائی ہوں گی۔ تعارف ہوا تو شدید حیرت ہوئی۔ عالیہ عروج نے بتایا کہ وہ شمالی امریکا کی جم پل ہیں۔ یہیں اسکول کالج گئیں، یہیں پی ایچ ڈی کی، یہیں پڑھاتی اور ریسرچ کرتی ہیں۔ انکی زبان دانی کی داد دی تو کہنے لگیں میرے گھر کا فیضان ہے۔ امریکا میں پاکستانیوں کی نئی نسل اُردو سےکچھ ہی نوری سال دور ہے، سو ہماری حیرت بر حق تھی۔ سنتے تھے کہ اسی باعث یہاں مشاعرے بھی سکڑ رہے ہیں، یہ اطلاع بھی کم از کم ڈیٹرائٹ کی حد تک غلط ثابت ہوئی۔ مشاعرہ گاہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور عالیہ نظامت کے فرائض انجام دے رہی تھیں، اور سامعین مقاماتِ داد سے خوب آشنا تھے۔مشاعرہ میں شرکت کیلئے جرمنی سے عاطف توقیر بھی آئے ہوئے تھے، وہ ایک معروف صحافی اور شاعر ہیں مگر ہماری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ متحرک، متجسس اور علم دوست، عاطف کی شاعری امکانات سے پُر ہے۔ ہم نے مشاعروں میں کسی شاعر کو نظم پر اتنی داد سمیٹتے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ جون بھائی کہا کرتے تھے اکثر شاعر اپنی شاعری یوں سناتے ہیں جیسےکسی اور کے شعر پڑھ رہے ہوں، کوئی سُنی سنائی کہانی سُنا رہے ہوں۔ جون بھائی عاطف کو سنتے تو یقیناً خوش ہوتے۔

مشاعرہ عین اُس دن منعقد ہو رہا تھا جس دن فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکا کے دورے پر آئے تھے، امریکا میں مقیم محبانِ پیٹرن ان چیف اُس روز کچھ زیادہ ہی مضطرب تھے، اور اس خطے میں یہ اصحاب بہتات سے پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہر مجلس میں نہ صرف وہ موجود ہوتے ہیں بلکہ اپنی موجودگی کا اعلانِ عام بھی کرتے ہیں، اس بات سے یکسر بے نیاز ہو کر کہ موقع محل کیا ہے، شادی ہےکہ جنازہ، دوستوں میں بیٹھے ہیں کہ اجنبیوں میں، آپ میزبان ہیں یا مہمان۔ سو مشاعرہ گاہ میں حُسن و عشق کے قصوں کے عین درمیان ایک صاحب اپنے جذبات کے آگے بند نہ باندھ سکے، اور اپنے مُرشد کے حق میں نعرہ زن ہو گئے۔ سامعین میں غالباً انکے ہم خیالوں کی اکثریت ہو گی مگر کسی نے انکی حوصلہ افزائی نہ کی، وہ صاحبِ پُر حال ایک دو بار منمنا کر خاموش ہو گئے۔ مشاعرہ گاہ جلسہ گاہ نہ بن سکی۔ اہلِ ڈیٹرائٹ کو داد جو جانتے ہیں کہ ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد۔

بہرحال، مشاعرے کے بعد مجلسِ شب میں عمرانیات پر خوب گفتگو رہی۔ ان دوستوں کی اکثریت نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، اس توقع پہ کہ وہ پہلی پیشی پر یار کو چھڑوا لے گا، اب یہ اصحاب ٹرمپ سے خفا ہیں۔ یار بھی نہیں چُھوٹا، تارکینِ وطن کو بھی زچ کیا جا رہا ہے اور جنگوں کی بھی ارزانی ہو گئی۔ فیلڈ مارشل کے دورے کے دوران بھی بہی خواہانِ خان نے واشنگٹن میں خوب کف اُگلا۔ ہم نے کوشش کی کہ یہاں کے دوستوں سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ انکے محبوب قائد کی جیل سے رہائی کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ سڑک پر کوئی آتا نہیں، پارٹی قیادت آپس میں دست و گریباں ہے، پیٹرن اور انکے حامی فوج پر لسانی یلغار میں مصروف ہیں، اوپر سے خطہ جنگوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے، بڑے بڑے مسائل زیر و زبر خطے کو گھور رہے ہیں، داخلی سیاست کہیں پچھلی نشستوں پر دُبکی ہوئی ہے۔ ایسے میں آپ کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ جواب ملتا ہے’’اللہ سب دیکھ رہا ہے‘‘۔ اب آپ ہی بتائیں اس’’سیاسی حکمتِ عملی‘‘ پہ کیا بات کی جائے؟

تازہ ترین