• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھاری قرض معافی، ٹیکس میں کمی، صنعتی بحالی کی تاریخی پالیسی تیار

اسلام آباد(اسرار خان )پاکستان کے جمود کا شکار صنعتی شعبے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے ایک تاریخی پالیسی کو حتمی شکل دے دی ہے، جس میں پریشان حال لیکن قابل عمل صنعتی اداروں کو 60 فیصد تک قرض معافی، بتدریج کارپوریٹ ٹیکس میں 26 فیصد تک کمی، قانونی اصلاحات، اور قرضوں کے حل کا فریم ورک کے ذریعے ریلیف دیاجائےگا، یہ اقدام جس کی قیادت اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کر رہا ہےاس پالیسی کا مرکزی نکتہ "بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی اور قرضوں کے حل کا فریم ورک (RDRSIU)" ہے، جو اسٹیٹ بینک نے تیار کیا ہے۔ اس کے تحت مالیاتی ادارے، بشمول ترقیاتی مالیاتی ادارے (DFIs) اور سرکاری مالیاتی ادارے (GOFIs)، غیر فعال قرضوں (NPLs) کو سود میں کمی، 10 سال تک کی ری شیڈولنگ، اور دوبارہ (نیا سرمایہ )ورکنگ کیپٹل کی فراہمی کے ذریعے ری اسٹرکچر کر سکیں گے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق، بیمار صنعتی ادارے یکمشت یا اقساط میں واجبات کی "فئیر فائنل سیٹلمنٹ (FFS)" کا اختیار بھی حاصل کر سکیں گے۔یہ بحالی پیکج وزیرِاعظم کی کمیٹی برائے صنعتی پالیسی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں منظور کیا گیا، جس کی صدارت وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے کی، اور جسے وزیرِاعظم شہباز شریف نے "پائیدار معاشی ترقی کی جانب ایک اہم قدم" قرار دیا۔یہ پالیسی صرف ان صنعتی قرض داروں کو ریلیف دے گی جنہیں "قابلِ عمل" یا "بیرونی معاونت سے قابلِ عمل" قرار دیا گیا ہو۔ جبکہ وہ ادارے جو "غیر فعال" ہیں اور تجارتی طور پر ناقابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی یا اثاثہ جات کی واپسی عمل میں لائی جائے گی۔سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے، کارپوریٹ ٹیکس کو موجودہ 29 فیصد سے کم کر کے تین سال میں 26 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے۔ جو قرض دار اپنے قرضوں کی سیٹلمنٹ کریں گے، انہیں ان رقوم پر انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 22 کے تحت ٹیکس میں کٹوتی کا اہل قرار دیا جائے گا۔اس عمل کو موثر بنانے کے لیے، کارپوریٹ ری ہیبیلیٹیشن ایکٹ 2018، SECP ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ (AML) قانون، اور ٹیکس قوانین میں اصلاحات کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔بینکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ابتدائی خبردار کرنے والے نظام (early warning systems) اپنائیں اور خاص طور پر 10 کروڑ روپے سے زائد کے قرضوں کے لیے تھرڈ پارٹی ڈیویلیوایشن یقینی بنائیں۔ شیڈو اکاؤنٹنگ اور بہتر آڈٹ ٹریکنگ کے ذریعے بین الاقوامی مالیاتی رپورٹنگ معیار IFRS-9 کے تحت شفافیت اور تعمیل کو یقینی بنایا جائے گا۔اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے دس ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں، جنہیں ایک ہفتے کے اندر عملدرآمد شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہارون اختر خان نے اس منصوبے کو "گزشتہ کئی دہائیوں کی پہلی سنجیدہ اور منظم صنعتی بحالی مہم" قرار دیا، جس کا مقصد غیر فعال صنعتی صلاحیت کو فعال کرنا اور وہ خراب قرضے ختم کرنا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔یہ فریم ورک 18 ماہ کے بعد وسط مدتی جائزے سے گزرے گا، اور وزارتِ صنعت کو ہر سہ ماہی میں پیش رفت رپورٹ بھیجی جائے گی تاکہ شفافیت اور اصلاحات کے ذریعے پاکستان کی صنعتی ریڑھ کی ہڈی کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکے۔
اہم خبریں سے مزید