کتنے کم ظرف ہیں رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے
پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے
ویسے تو یہ سوال 1947 سے اب تک کے سب سیاسی اور فوجی حکمرانوں سے کیا جانا چاہیے۔پالیسی سازوں سے پلاننگ کمیشن کے چیئرمینوں سے اور ارکان سے،انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے سربراہوں سے لیکن خاص طور پر تو یہ سوال آج کے حکمرانوں سے کرنے کا ہے کیونکہ یہ 1985 سے باری باری حکمرانی کرتے آرہے ہیں، غیر سیاسی قوتوں سے بھی ان کی شراکت رہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون ہی الیکشن جیتتی ہارتی آ رہی ہیں وزارت عظمیٰ کبھی جاتی امرا کبھی بلاول ہاؤس میں رہتی ہے۔آب پاشی زراعت شاہراہوں کی وزارتیں بھی ان کے ہاتھوں میں رہی ہیں۔ میٹھا پانی کس بے دردی سے ضائع ہو رہا ہے ۔یہ پانی جو زندگی کی علامت ہے۔ جس کیلئے دنیا کے بیشتر ممالک ترستے ہیں وہی ہمارے ہاں تباہی بن جاتا ہے۔ انسان کا ہمدم انسان کا قاتل بن جاتا ہے۔ تاریخ پوچھتی ہے کہ کون اس کا ذمہ دار ہے اس پانی کو محفوظ کرنےکیلئے ،اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو سنبھالنے کیلئے آبی ذخیرے کیوں نہیں بنائے گئے کیا کوئی ادارہ تحقیق کرے گا کہ کالا باغ ڈیم بنانے پر جھگڑے تو بہت ہوئے آج تک ہو رہے ہیں اس کے نہ بننے سے جو نقصانات ہوئے ہیں اس پر کون نادم ہے۔ اس مقام پر یا اس نام سے کوئی ڈیم نہ بنتا لیکن کچھ بڑے ڈیم تو بننے چاہئیںتھے۔ ضائع ہونے والا پانی محفوظ بھی ہو جاتا موت کے بجائے زندگی کا سرچشمہ بنتا اور اس سے بجلی بھی پیدا ہوتی ۔
آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کے لمحات۔ اکٹھے رہتے ہیں تو بہت ہی اچھا ہے ۔دور دور رہتے ہیں۔ تب ہفتے میں ایک بار کہیں سب اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ دادا دادی ،نانا نانی اپنے ہاں بلا سکتے ہیں یا کوئی بیٹا بیٹی اپنے ہاں مدعو کر سکتے ہیں۔ محبت بانٹی جانی چاہیے۔ شکر ہے کہ اس تجویز پر تو عمل ہو رہا ہے بہت سے قارئین اپنے خاندانوں کی ہفتہ وار یکجائی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی ،سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی ،پنجاب جنوبی پنجاب، خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان ،آزاد جموں و کشمیر میں بھی مشترکہ خاندان مشرقی روایت ہے ۔مغرب جہاں یہ معمول بوجوہ ختم ہوا وہاں بھی اس کا احیا ہو رہا ہے۔ دادا دادی نانا نانی سے کہانیاں سننے کی طلب ہو رہی ہے ۔
ہم اس کے ساتھ ساتھ اتوار کو نماز عصر کے بعد محلے داری پر بھی زور دے رہے ہیں۔ 21ویں صدی میں مشینوں نے جس طرح انسان کو بے بس کر دیا ہے۔ احساس مروت چھین لیا ہے اور اب تو مصنوعی ذہانت آگئی ہے ۔مصنوعی تمدن، مصنوعی حکمرانی، مصنوعی محبتیں ،مصنوعی شادیاں پہلے ہی زور پکڑ رہی تھیں اب مصنوعی تحریریں، مصنوعی تقریریں ،مصنوعی مکالمے بھی آگئے ہیں۔
شہروں دیہات میں گھبرو مٹیاریں، بڑی بوڑھیاں سب اداکار بن رہے ہیں۔ مصنوعی غصے ،مصنوعی حادثے اتنی تعداد میں برپا کیے جا رہے ہیں کہ انسان اصلی اور حقیقی کیفیتیں بھول رہا ہے۔ لیکن انسانوں کو تکالیف آج بھی اصلی درپیش ہیں، مصنوعی ماحول اصلی درد کا درماں نہیں بن سکتا۔ ٹک ٹاک وی لاگنگ مصنوعی ڈراموں سے انسان کے دکھ درد دور نہیں ہو سکتے ۔اس لیے اب ہمسائیگی میں ہمدمی اور اور زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔ نماز عصر کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں بیٹھیں ایک دوسرے کا درد سمجھیں۔
اب جو دریاؤں، ندی نالوں، نہروں میں طغیانی سے لاکھوں گیلن پانی مکانوں میں گھس رہا ہے ،گلیوں میں تباہی لا رہا ہے۔ یہ بہت قیمتی پانی ہے اس کو ذخیرہ کیا جانا چاہیے۔ اب تو دنیا ترقی کر گئی ہے ۔پہلے سے اطلاع ہوتی ہے کہ کتنی شدت کی بارش ہوگی۔ پانی کہاں کہاں سیلاب بن سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تمام حفاظتی اقدامات ہر قسم کے ڈیموں کی تعمیر کے باوجود انہونیاں ہو جاتی ہیں۔ امریکہ یورپی ملکوں سے جاپان چین سے ایسے تباہ کن مناظر کی ویڈیوز آ جاتی ہیں مگر وہاں متعلقہ اداروں نے ایسے انتظامات کیے ہوتے ہیں کہ جانی مالی نقصانات کم ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں ہر محلے میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ اگرپانی سر سے گزرنے کا خدشہ ہو تو کس علاقے نے گھر بار چھوڑ کر کس اسکول میں یا کس کمیونٹی سینٹر میں پناہ لینی ہے ۔وہاں متعلقہ اداروں نے پہلے سے ہی ممکنہ پناہ گزینوں کی ساری ضروریات کا انتظام کیا ہوتا ہے ۔
امریکہ میں ہوم لینڈ سیکورٹی زلزلوں ،بم دھماکوں ،سیلابوں میں شہریوں کی جان مال کی حفاظت کرتی ہے۔ مہذب ملکوں میں ایسے ہنگامی حالات میں حکمران اور شہری ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔انہیں گلے شکوؤں کی حاجت نہیں ہوتی کہ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہوتا ہے۔ وہاں کے حکمران ان میں سے ہی ہوتے ہیں ۔
ہمارے ہاں حکمرانوں نے عوام کو اتنے دھوکے دیے ہیں کہ ان کی املاک تو بڑھتی جا رہی ہیں ملک میں بھی اور باہر بھی۔ سب سے تشویش ناک امر یہ ہے عام لوگوں کو حکمران طبقوں میں سے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ چاہے وہ سیاسی حاکم ہوں یا غیر سیاسی۔
یہ بھی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ واہگہ سے گوادر تک لوگوں کو ایک قومی سوچ دیتے۔ قیمتی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے نئے گھروں ،نئے اداروں، اسکولوں اور سرکاری عمارتوں میں بارش کے پانی کیلئے الگ سے ٹینک بنانا لازمی ہوتا ۔انڈیا،آسٹریلیا ،یورپ کے کئی ملکوں میں ہر نئی عمارت میں میٹھے برساتی پانی کے ٹینک بنائے جارہے ہیں اس کیلئے پرنالے بھی الگ سے ہوتے ہیں جو اس پانی کو سیدھے متعلقہ ٹینک میں لے جاتے ہیں۔
اللّٰہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ ہمارے پاس دریا ہیں چھوٹے بڑے لیکن ان کے پاٹ صاف رکھنا ریت نکالنا نہروں کی صفائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے مقررہ اوقات پہلے سے طے ہوتے ہیں مگر بتدریج ہمارے ہاں ان اوقات میں متعلقہ اقدامات نہ کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور اس پر کسی کی کوئی جواب دہی نہیں ہوتی۔ ایک عام کلرک سے لے کر وزیر تک سب بالائی آمدنی کے لالچ میں اپنے فرائض سے کوتاہی کر رہے ہیں۔ موجودہ پاکستان دریائے سندھ کے دونوں طرف آباد مختلف قومیتیں، نسلیں، الگ الگ زبانیں بولنے والے سب ایک مثالی اقتصادی وحدت بن سکتے ہیں اس دھرتی میں بہت توانائیاں ہیں بہت زرخیزیاں ہیں۔ قدرتی نعمتوں ،معدنی وسائل اور افرادی قوت کیلئے پوری قوم کی سوچ ایک ہونی چاہیے اور جہاں جہاں یہ قدرتی وسائل ہیں ان شہروں مقاموں اور دیہات کے باشندوں کو اس کا فائدہ ملنا چاہیے ۔جو کام جس کا ہے اس کو کرنے دیں۔ عقل کل کوئی بھی نہیں ہے۔ اجتماعی چیلنجوں کا مقابلہ اجتماعی دانش سے ہی ہو سکتا ہے۔