خیبر سے کراچی تک مبینہ کرپشن کی ہوش ربا داستانیں سنائی دے رہی ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتاکہ منتخب حکومتوں کی چھترچھایہ تلے سرکاری اداروں میں اربوں روپے کی لوٹ مار کی آڈٹ شدہ رپورٹیں منظرعام پر نہ آ رہی ہوں۔ کھربوں روپے کمانے والے ادارے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ کوہستان میگا اسکینڈل سیکورٹی اداروں کے سازوسامان حتیٰ کہ خوراک ،جوتوں، یونیفارم کی خریداری میں مبینہ کرپشن کے تصدیق شدہ اسکینڈلز حکومتوں کی نااہلی و غفلت سے تباہی و بربادی کی وہ کھوکھلی بنیادیں ہیں جو ہمیں اور ہماری معیشت کو زمین بوس کرتی چلی جا رہی ہیں۔ بظاہر ہمیں یہ کہانی سنائی جا رہی ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل آئے ہیں اب پاکستان اونچی اڑان بھرنے کو تیار ہے۔اصل کہانی تو اُلٹ ہے۔ ایک طرف معیشت کو بیساکھیوں پر چلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر یہ رونا رویا جاتا ہے کہ سیاسی استحکام آئے گا تومعیشت مستحکم ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہ استحکام کس طرح آئے گا اور کون لائے گا؟ جواب ندارد، ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ سیاسی مسائل کا حل صرف مذاکرات سے ہی نکلے گا توپھر مذاکرات کی راہ کیوں نہیں نکالی جا رہی، کون اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو متحد نہیں ہونے دیتی۔ بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فی الحال مفاہمت کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ بانی پی ٹی آئی اس بات پر بضد ہیں کہ بات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کی جائے گی جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے منہ موڑ رکھا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ بانی پی ٹی آئی موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خاموشی سے ہتھیار ڈال کر جیل سے باہر پی ٹی آئی قیادت کو موجودہ حکومت کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کا اختیار دے کر کوئی ایسی تدبیرکرتے کہ برف پگھلنے لگتی۔نہ بانی پی ٹی آئی کو کچھ سمجھ آتی ہے نہ ہی کوئی انہیں سمجھا سکتا ہے۔ اصل رکاوٹ ان کا سخت گیر رویہ ہے مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو کوئی اڈیالہ جیل کے گیٹ کے پاس سے بھی گزر جاتا ہے وہ اپنے آپ کو بانی پی ٹی آئی کا سب سے قابل بھروسہ کارکن ثابت کرنے کی کوشش میں بانی کے نام سے ایسا بیان داغ دیتا ہے جیسے یہ اڈیالہ جیل کی لائن آف ایکشن ہو۔ کسی سیاسی رہنما کا نام لئے بغیر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے دوست نما دشمن بانی پی ٹی آئی کے پاؤں کی اصل زنجیر ہیں جو انہیں اڈیالہ جیل کے میٹنگ روم تک تو لے آتے ہیں لیکن باہر نہیں نکلنے دیتے۔ کیونکہ اکثریت گیٹ نمبر4 پر کھڑی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی سیاست آج جس نہج پر کھڑی ہے وہ نہ صرف ایک قوم کی اجتماعی ناکامی کی تصویر پیش کرتی ہے بلکہ ایسی کہانی بھی سناتی ہے جو ہر پانچ سال بعد نئے خواب دکھا کر انہیں چکنا چور کردیتی ہے۔ بظاہر جمہوری نظام قائم ہے۔ پارلیمان بھی موجود ہے ۔ موجودہ بندوبستی نظام حکومت کے چرچے بھی ہیں مگر عملاً ملک غیریقینی صورت حال کا شکار ہے یہاں سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں نے عوام کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔ 2024 ءکے عام انتخابات کے بعد سیاسی خلفشار میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ دھرنوں،احتجاجوں اور الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایسے میں جب معیشت بدترین بحران سے گزر رہی ہے مہنگائی ایک بار پھر آسمان کو چھُو رہی ہے ،پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ قومی مفاد پس پشت چلا گیا ہے اور ذاتی مفادات ہی اصل ایجنڈا بن چکے ہیں۔ان حالات میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا جیسے اداروں کا کردار بھی موضوع بحث ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عدلیہ کے فیصلے کئی بار سیاسی فریقین کیلئے فائدہ مند یا نقصان دہ ثابت ہوئے۔ جسکے باعت اس کے غیرجانب دارانہ کردار پر سوالات اٹھے۔ اسی طرح فوج جو آئینی طور پر غیرسیاسی ادارہ ہے اس پر بھی بارہا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے الزامات لگے۔ میڈیا نے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی مگر دوسری جانب ریٹنگ کی دوڑ اور مخصوص بیانیہ کے پرچار کے باعث اس کا اعتبار بھی مجروح ہوا ہے۔ آج پاکستانی شہری سمجھتا ہے کہ اسے سچ سننے کو نہیں ملتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو زچ کرنےکیلئے دن رات زور لگا رہے ہیں لیکن عام آدمی کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا۔ پیٹرول ،آٹا،چینی،بجلی، گیس ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے۔ نوجوان بے روزگار ہے۔ کاروبار تباہ ،تعلیمی نظام زوال کا شکار، صحت کا شعبہ مکمل طور پر نظرانداز ہے۔ عوام کا اس بندوبستی نظام سے اعتماد پہلے سے بھی زیادہ اٹھتا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ہوش کے ناخن لیں۔ ریاست کا بوجھ صرف ایک پارٹی نہیں اٹھا سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک وسیع تر قومی مفاہمی عمل شروع کیاجائے جس میں تمام سیاسی و سماجی قوتیں شامل ہوں۔الیکشن کمیشن کو آزاد اوربااختیاربنایا جائے تاکہ مستقبل میں انتخابات کے منصفانہ ہونے پر کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔ اداروں کو بھی کسی حد تک اپنا دائرہ اختیار متعین کرنا ہوگا تاکہ جمہوریت کو متنازع بنانے کے بجائے مضبوط کیا جا سکے۔ آئین و قانون کی بالادستی ،پارلیمان کا احترام، عوامی رائے کا وقاریہی وہ راستے ہیں جو پاکستان کو سیاسی استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ حالات بہت مایوس کن ہیں مگر امید کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاست دان اپنی اناؤں کو ترک کرکے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ آثار ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ پاکستان اور ایران کی جنگ میں فتوحات کے باوجود دشمن اپنی چالیں چلنے سے باز نہیں آ رہا اور آنے والا وقت انتہائی کٹھن ہوگا۔ ابھی سے ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاری کرلیں۔