• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہر انقلاب پہلے خوابوں میں آتا ہے پھر دعوؤں میں کھو جاتا ہے آخر میں اسے تاریخ کے اوراق میں دفن کردیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے بھی تحریک انصاف کو تین بار اقتدار سونپ کر ایسے ہی ایک انقلاب کی بنیاد پختہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ اب ان کی زمینیں زیتون اُگلیں گی،سولر چمکے گا، صحت کارڈ ان کے دکھوں تکلیفوں کا مداوا کرے گا اور کرپشن کا جنازہ خان پڑھائے گا۔ جب بڑے خان نے ”تبدیلی“ کا نعرہ بلند کیا تھاتو خیبرپختونخوا وہ پہلا صوبہ تھا جسکے عوام نے اس پر یقین کیا ۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں بڑے خان نے اپنی سوچ ‘فکر ‘ نظریے کو پروان چڑھانے کیلئے سب سے زیادہ تجربات کئے۔ بلند بانگ دعوؤں سے اپنے ووٹرز کو گرمائے رکھا۔ انقلابی اصلاحات کے نعرے لگائے اور ہر بار اس صوبے کے لوگوں کو ڈھال بنا کر اسلام آباد پر چڑھائی کی۔ خان کے پُرجوش ٹائیگروںنے اس کی ہر کال پر جان و مال قربان کیا‘ قسمت کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ آج چہرے وہی ہیں مسائل پہلے سے کہیں زیادہ پہاڑ بنے کھڑے ہیں۔ آج 2025ءمیں ٹائیگرز بھیگی بلی بنے خان کی اس تبدیلی کو کوسنے دے رہے ہیں۔ خصوصاً جب سے گنڈا پور حکومت آئی ہے وہ اس کا خمیازہ پہلی حکومتوں سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔ گنڈا پور جو اپنے دبنگ اندازِ بیان‘ لمبی مونچھوں‘ دراز گیسوؤں کی وجہ سے رُعب ودبدبے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ وکٹ کی دوسری جانب کھڑے لوگوں سے میل ملاپ کی وجہ سے بڑے خان کی رہائی کی کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکال لیں گے اور اپنی چرب زبانی سے وہ وفاق پر شدید دباؤ ڈال کر صوبے کے مفاد میں تحریک انصاف کی پہلی دو حکومتوں سے بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔تاہم وہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے اب اقتدار بھی ڈانواں ڈول ہے۔ یہ تبدیلی اب ہر کسی کے گلے کا پھندا بنتی جا رہی ہے۔ صد افسوس ! کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والی تحریک انصا ف خود گھٹنے گھٹنے کرپشن میں دھنس چکی ہے۔ خیبرپختونخوا میں کرپشن کے ڈیجیٹل اور جدید انداز سامنے آ رہے ہیں۔ ہر محکمہ سیاسی اثرورسوخ ،ملی بھگت سے کھاؤ پیو آگے بڑھوکی پالیسی پر گامزن ہے اور گنڈا پور صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک محدود ہیں۔ فنڈز کی کمی ‘ وفاق سے ٹکراؤ کی پالیسی ان کا بنیادی سیاسی ایجنڈا ہے۔ عملی طور پرانکی نا تجربہ کاری ‘ ناقص منصوبہ بندی ‘ سیاسی بلیک میلنگ نے خان کے ٹائیگروں کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے دوران 5 ‘ 6 کے فارمولے پر اپوزیشن سے اتحاد اس رلی ملی سرکار کی تازہ ترین مثال ہے کہ طاقت وروں نے طے شدہ فارمولے کے تحت دونوں طرف اپنے پسندیدہ امیدوار سینیٹرز منتخب کرا لئے۔ اب کھیل ختم پیسہ ہضم، گنڈاسہ پور کے اطراف تبدیلی کی آندھی چل پڑی ہے۔ امن و امان کے نام پر ہونے والی اے پی سی بظاہر تبدیلی روکنے کی ایک ناکام کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ اس اے پی سی سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کے دوران گنڈاسہ پور نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاق کی حکمت عملی اورصوبے میں ممکنہ آپریشن کو جس طرح مسترد کیا ہے اور ردعمل کے طورپر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک فقرے ”ایک اہم صوبائی عہدیدار ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کو کتنے پیسے ہر ماہ دیتا ہے“ میںجو کہانی بیان کی ہے یہ ذاتی و سیاسی تحفظ کی خاطر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی طرف ایک سنگین الزام اور اشارہ ہے جسے گنڈاپور حکومت کے خلاف کھلی چارج شیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیرداخلہ کے اس دو سطری شدید ردعمل کا میڈیا پر اتنا شہرہ نہیں ہوا مگر یہ گنڈا پور کی وفاق سے ٹکراؤ کی پالیسی پر ایک ایسا انتباہ ہے کہ اگر اس کڑوے سچ کے پیچھے چھپی کہانی کو خیبرپختونخوا میں سرکاری کرپشن کی داستانوں کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے تو کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں،ان کے سہولت کاروں کے بارے میں بڑے بڑے انکشافات سامنے آئیں گے ۔ اس الزام میں سیاست تھی یا کوئی مداخلت یا یہ کسی طے شدہ حکمت عملی کا ابتدائیہ ہے۔ یہ الزام کسی صحافی ،تجزیہ کار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ نے نہیں لگایا بلکہ ریاست کے ذمہ دار ترین نمائندے کا ہے جسکے ہاتھوں میں وہ خفیہ فائلیں ہوتی ہیں جہاں ہر کسی کی رسائی ممکن نہیں۔ ان کا یہ جملہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ اسے باقاعدہ خاص اشارہ سمجھا جا سکتا ہے جس نے کچھ جواب طلب سوالات کوجنم دیا ہے۔ اس بارے میں کوئی دو آرا نہیں کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع عرصہ دراز سے شدت پسندی،طالبانائزیشن ، سکیورٹی خدشات کا گڑھ بن چکے ہیںخصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان جو گنڈاپور صاحب کا حلقہ انتخاب بھی ہے وہاں طالبان نے متعدد بار سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں ،صحافیوں اور عوامی نمائندوں کو نشانہ بنایا اور تاحال وہاں حکومتی رٹ قائم نہیں ہو سکی۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کئی علاقوں میں طالبان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں جہاں ان کا اپنا عدالتی و ٹیکس وصولی کا نظام ہے ۔ بعض صورتوں میں تو سرکاری اہل کار ان کی اجازت کے بغیر کام نہیں کرتے ۔ اب اگر ان علاقوں میں حکومتی نمائندے ”منتھلی“ دے کر اپنا ”وجود “ برقرار رکھ رہے ہیں تو پھر ریاست کی خودمختاری پر سوال اٹھتے ہیں کہ ہم کون سا امن حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری ریاست ان دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے ‘ ہمارے جوان شہید کئے جا رہے ہیں اور صوبائی حکمران نہ صرف عوامی اجتماعات میں وفاق کی افغان پالیسی کو ردکرکے دہشت گردوں سے بھتے کی شکل میں اپنا تحفظ بھی مانگ رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی دہشت گرد کو ”مہذب“بنانے کی کوشش میں اس سے شراکت داری کرلی جائے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کے یک سطری الزام کو صرف سیاسی بیان سمجھا جائے یا گنڈا پور حکومت کے خلاف چارج شیٹ۔؟

تازہ ترین