اگست کی جب بھی آمد ہوتی ہے کتنے سوئے ہوئے جذبے جاگنے لگتے ہیں ۔
بیسویں صدی ہو یا 21ویں۔اصلی ذہانت ہو یا مصنوعی ۔لوح و قلم کا زمانہ ہو یا کی پیڈ اوراسکرین کا ۔غلامی کا دور ہو یا آزادی کا ۔آزادی معلوم ہو کہ آزادی موہوم۔اگست کا جذبہ اسی طرح برقرار رہتا ہے۔ کیونکہ وہ صبح آزادی کامل ابھی تک نہیں آئی۔ جسکے حصول کیلئے سندھ،پنجاب، سرحد، یو پی،سی پی،دلی،بہار، بنگال، دکن، جونا گڑھ میں لوگ قائد اعظم کی قیادت میں سر پر کفن باندھ کر نکلے تھے اور پھر 14اگست 1947ءکا سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔
خون کی گردشوں میں شامل تھا
یہ وطن دھڑکنوں میں شامل تھا
بستے گھر چھوڑ چل پڑے تھے سب
اک جنوں ولولوں میں شامل تھا
نقش ہجرت ہیں جن کی تصویریں
میں بھی ان قافلوں میں شامل تھا
مال گاڑی کا وہ کھلا ڈبہ
ان دنوں جنتوں میں شامل تھا
اس کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں سبھی
خواب جو رتجگوں میں شامل تھا
میں میری ماں میرے والد محترم بڑے بھائی انبالہ چھائونی سے لاہور آ رہے تھے۔ ایک مال گاڑی میں چھت کے ڈبے میں جگہ ملی تھی۔ میں چھوٹا تھا اس لیے ماں کی گود میں تھا اور اپنے نئے وطن کی گود میں جانے کیلئے بے تاب۔کر پانیں تلواریں لیے سکھ،بندوقیں لیے ہندو بلوائی گھوڑوں پر سوار چیخ رہے تھے گاڑی پر حملے کی کوششیں کر رہے تھے۔
78 سال گزر گئے لگتا یہی ہے کہ مال گاڑی کے کھلے ڈبے میں ہم سب چلچلاتی دھوپ میں ہیں ۔ہنود و یہود چیخ رہے ہیں۔اگست بہت کچھ یاد دلا دیتا ہے لٹے پٹے قافلے، مہاجر کیمپ،اپنے گم ہونے والوں کی تلاش،نئے وطن میں مشرقی بنگال ہو مغربی پنجاب سرحد سندھ بلوچستان۔پاکستان بننے سے پہلے سے پاکستانی ہونے پر فخر کرنے والے بزرگوں، ماؤں، بہنوں ، بھائیوں نے کس طرح خیر مقدم کیا ۔سندھ کے بڑے خاندانوں نے کس طرح اپنے دلوں اور گھروں کے دروازے کھولے ۔مہاجر کیمپوں میں کس طرح دل جوئی کی جا رہی تھی۔ مسلم لیگ کے رضاکار کتنے سرگرم تھے۔ پاکستان کے عام فوجی کس تندہی سے بلکتے بچوں سے 'سسکتی ماؤں ،خون اگلتے باپوں کی مدد کر رہے تھے لیکن طالع آزما جاگیردار نواب وڈیرے اس وقت بھی اپنے طبقاتی مفاد کا تحفظ کرنے میں سرگرم تھے ...مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ اگست کا جذبہ غریب اکثریت میں تو زندہ رہا۔ مقامی ناداروں میں ہاریوں میں مزدوروں میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے آنیوالے مفلسوں میں بھی لیکن اشرافیہ اس جذبے سے آزادی حاصل کرتی رہی۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اپنے جذبہ اگست کوپاکستان پرجارحیت میں بدل لیا ۔اسے مسلمانوں کے اپنی غلامی سے نکلنے کا قلق تھا ۔پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ بھارت ماتا کا جسم کاٹا گیا ہے۔ اگست1971 ءمیں بھارت نے روس سے دفاعی معاہدہ کیا جس کا نتیجہ دسمبر 1971 ء میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلا ۔بھارت نے ہر دور میں ہر صورتحال سے اپنے ملکی مفادات کو مستحکم کیا۔ پہلے کمیونسٹ روس سے گہرے تعلقات رکھے سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ سے پینگیں بڑھائیں۔ ہم 1947 سے امریکہ کے اتحادی رہے ۔بدنام زمانہ سیٹو سینٹو کے رکن بنے۔ کمیونزم کے خلاف شمشیر برہنہ بھی رہے۔ لیکن جب بھی وقت پڑا 1965 ہو کہ 1971 امریکہ ہماری مدد کیلئے نہیں آیا۔ غیر جانبدار ہو گیا۔ پاکستان کی خود کفالت میں امریکہ نے کوئی مدد نہیں کی۔ اسٹیل مل بھی روس نے لگائی ۔ہیوی مشینری کمپلیکس چین نے۔ ہم 78 سال سے امریکہ کے عشق میں مبتلا ہیں وہ ایک محبوب کی طرح ناز نخرے دکھاتا ہے ۔ہم پر پابندیاں لگاتا ہے ۔قربانیاں مانگتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دھمکی دیتا ہے کہ مستقبل آج شروع ہو رہا ہے تم اگر ساتھ نہیں دو گے تو ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں لے جائیں گے اور آج 24 سال بعد امریکہ ہمارے قیمتی پتھر ہتھیانے کی دھن میں ہے اور ہم بھی 10 ہزار میل دور تجارت کرنے جا رہے ہیں۔ اپنے ہمسائے میں جہاں سڑک سے سامان، بھاری مشینری آ سکتی ہے۔ شاہراہ قرا قرم سے۔ وہاں ہمارے وزیر خزانہ ڈیل نہیں کرنے جا رہے ۔اگست پھر کہہ رہا ہے کہ ہم وہاں نہیں ہیں جہاں آزادی کے 78سال بعد ہونا چاہئے تھا ۔
ہماری آدھی آبادی 78سال میں غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ کیا امریکہ کو اس کی فکر ہے، 78سال بعد ہمارے حکام حکمران ہمارے ادارے جتنے خدا ترس ہونے چاہئیں تھے ۔اپنے ہم وطنوں کا جتنا درد ہونا چاہیے تھا وہ تو نظر ہی نہیں آتا۔ بلکہ یہ ہمارے انگریز آقائوں سے زیادہ سخت اور پتھر دل ہو گئے ہیں۔ وطن کی پوری دل و جان سے خدمت کرنیوالے اپنے واجبات کی ادائیگی کے انتظار میں اپنے بڑھاپے گزار رہے ہیں۔ اسپتالوں کے بستروں پر ہیں۔ اساتذہ جنکی مہذب ملکوں میں بہت عزت کی جاتی ہے وہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ٹریڈ یونینوں کو بے بس کر دیا گیا ہے۔ سینئر صحافی محترم استاد ڈاکٹر توصیف احمد خان کا ایک درد بھرا خط موصول ہواہے ۔’’وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین 2017ء سے اپنے ریٹائرمنٹ کے واجبات کے منتظر ہیں ۔ ان میں سے 14جیتے جاگتے انسان اپنے واجبات کے انتظار میں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ کئی بزرگ ریٹائرڈ ملازمین انتہائی نازک طبی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان ریٹائرڈ اساتذہ کیلئے قائم آرگنائزنگ کمیٹی گزشتہ دو سال سے سراپا احتجاج ہے۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کسی صورت اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اساتذہ اور ملازمین کے پنشن فنڈز کے 67 کروڑ روپے سے مختلف بینکوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن ریٹائرڈ اساتذہ اور عمال کے واجبات ادا نہیں کیے جا رہے‘‘ یہی صورتحال لاکھوں پنشن گزاروں کی ہے۔ انکی پنشن سے سرکاری ادارے منافع کما رہے ہیں مگر جن کا حق ہے وہ ادا نہیں کیا جا رہا ۔کیا 78 سال بعد ایک آزاد ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کو اس بے کسی سے دوچار ہونا چاہئے تھا۔ اردو ویسے بھی مظلوم ہے اور اردو یونیورسٹی اس سے بھی زیادہ مجبور۔ اپنوں کا اپنوں سے یہ سلوک ہے۔ کوئی ہے اسلام آباد پنڈی میں جو اس بے رحمی، سفاکی، نا انصافی کا نوٹس لے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات