• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاستی ادارے بنیادی آئینی اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں، شاہد خاقان

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“کے آغاز میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان عوام پارٹی کے کنوینر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، عوام غربت، بیروزگاری اور بداعتمادی کا شکار ہیں، اور ریاستی ادارے بنیادی آئینی اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ملک کی موجودہ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر تمام سیاسی قوتیں اور ادارے مل کر فیصلے نہ کریں تو استحکام ممکن نہیں۔کنوینر عوام پاکستان پارٹی، شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ پارٹی دو بندوں پر نہیں ہوتی پارٹی کی سوچ ہوتی ہے۔ملک کے معاملات کی اگر کوئی جماعت بات کرتی ہے تو ہماری جماعت کرتی ہے۔اس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بات بھی کرسکتی ہے اور تجربہ بھی موجود ہے۔ہم ہر گلی کی سطح پر کوشش کررہے ہیں ابھی پاکستان کے ایک تہائی ضلعوں میں ہماری جماعت موجود ہے۔ کوشش ہے آئندہ چھ آٹھ مہینے میں سارے ضلعے مکمل ہوجائیں۔ ہم نے کسی electable سے رجوع نہیں کیا۔یہاں جمہوریت نہیں ہے تو بہت سی مشکلات کے بعد ایکmarquee میں جلسہ کرنے کی اجازت ملی۔بہت سی قدغنیں لگائی گئیں کہ آپ نے یہ یہ نہیں کرنا۔ یہی وقت ہے جو آج ملکی سیاست ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے آرگنائزیشن بھی ہے ان کے ممبران بھی ہیں لیکن ان کے پاس نہ صلاحیت ہے اور نہ سوچ ہے۔اس لئے مستقبل میں آپ دیکھیں گے کہ عوام دوسری جماعتوں کو دیکھیں گے۔ ملکی معاملات کو سمجھنا ، ملکی معاملات پر بات کرنا، ان کا حل نکالنا بدقسمتی سے آج کسی ملکی جماعت میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔آج ملک نہیں چل رہا یہ بڑی واضح حقیقت ہے۔45 فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے ہیں۔3 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔معیشت میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔ معیشت کی منفی گروتھ ہے۔لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ کسی پیمانے سے بھی ملک کو دیکھ لیں ملک کوئی ترقی نہیں کررہا ہے۔ 16 مہینے پہلے حکومت رہی درمیان میں عبوری حکومت رہی۔اب16 مہینے ان کو مزید ہوگئے ہیں اب16 سال میں استحکام آئے گا۔2013 ء سے2018ء کی حکومت میں بہت سے مسائل حل ہوئے۔2018ء کے بعد جو ملکی حالت ہوئی اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔سی پیک کی وجہ سے گروتھ ساڑھے چھ فیصد سے اوپر چلی گئی تھی۔ہم الیکشن چوری کرتے ہیں تو ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر ہم محسوس کرتے ہیں بڑی طاقت آگئی ہے۔لیکن ملک اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرتا ہے۔الیکشن جو بھی چوری کرتے ہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے کرتے ہیں۔الیکشن کی ایک بڑی بنیادی بات ہوتی ہے کہ جو عوام کی رائے ہواس کا احترام کیا جائے۔ہماری یہ روایات نہیں رہی ہم نے ہر الیکشن کے اندر کچھ مداخلت کی ہے بڑے تجربے ہوچکے ہیں۔تجربے اتنے ہوچکے ہیں اب مزید گنجائش نہیں رہی۔اب سب کو ملکر ملک کی بات کرنا پڑے گی۔ ماضی کو ماضی میں چھوڑ دیں اس سے سبق حاصل کریں۔ایک تجربہ جو ڈی سیٹ کرنے کا ہے ضمنی انتخابات جیت لو زیادہ بندے اسمبلی میں آجائیں گے یہ ناکامی کی داستان ہے۔اگر کوئی آئین توڑنے پر تل جائے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ملک کا ہر آئینی عہدیدار حلف لیتا ہے کہ میں آئین کا دفاع کروں گا۔بنیادی آئینی حقوق آج پاکستانی عوام کو کتنے میسر ہیں۔آج جو حالات ہیں ایسے حالات کبھی نہیں تھے۔ کل کے دوست آج کے دشمن ہوتے ہیں آج کے دوست کل کے دشمن بن جائیں گے ملک کا کیا بنے گا۔ یہ دوستی یاریاں چلتی رہتی ہیں ملک کی فکر کریں۔میری اس ملک کے ارباب اقتدار ، ارباب اختیار سے گزارش ہے ملک کی بات کریں۔ملک چل نہیں رہا اس سے بڑا خطرہ کیا ہوتا ہے۔دنیا میں جہاں لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں ہم اس میں نمبر ایک پر ہیں۔جس معیشت میں ترقی نہ ہورہی ہو نیا کاروبارنہ آرہا ہو روزگار کے مواقع نہ پیدا ہورہے ہوں وہ معیشت ترقی یافتہ اور مستحکم نہیں سمجھی جاتی۔آج ملک بند کرکے فارن ایکسچینج ریزرو قائم ہوئے ہیں۔ ان میں سے ریزرو کی اکثریت وہ ہے جو ہمارے دوست ممالک نے رکھے ہیں جن کو ہم استعمال نہیں کرسکتے۔ترسیلات زر ایک بہت تشویشناک بات ہے اس میں حکومت کی کوئی کامیابی نہیں ہے۔پوری معیشت32 ارب ڈالر کی برآمدات کرتی ہے۔آج پاکستان کی جو حالت ہوگئی ہے اس کے ذمہ دارسب ہیں کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔اس سے سبق حاصل کریں کہ ہم نے کیا خرابیاں کی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں وہ خرابیاں بھی نظر نہیں آتیں جن سے ہم سبق حاصل کرسکیں۔ہم مزید کوشش کررہے ہیں کہ ملک میں نفاق پیدا ہوملک میں انتشارختم نہ ہو۔ ہم نے سیاست کو دشمنی اور نفرت میں بدل دیاہے یہ چیزیں ہم نے درست کرنی ہیں۔الیکشن سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے جو2018ء اور2024ء کے الیکشن میں ہوا ہے اس کے بعد الیکشن نہ کرائیں تو بہتر ہے۔چار پانچ سیاست دان، عدلیہ کے سربراہ ہیں یہ آج ملکی معاملات پر اثر انداز ہیں وہ مانیں یا نہ مانیں۔ این ایف سی کافورم موجود ہیں اس کے علاوہ بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ عمران خان کو پیرول پر لائیں اور بٹھائیں کون سی مشکل بات ہے۔ایک بڑی سیاسی جماعت ہے کل تک اقتدار میں تھی آج بھی اس کی ایک بڑی حیثیت ہے۔ صوبے کی حکومت ان کے پاس ہے ۔ ایک دوسرے کو ماننا پڑے گا۔ کل ہم دشمن تھے آج عمران خان دشمن ہیں۔یہ پہلے مظاہرہ کریں کہ ہمیں اس ملک کی فکر ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی حالات خراب ہیں ہمارے پاس یہ حل ہے ہم سب کو مل کر حل پر عمل کرنا ہے۔ٹکڑوں میں نہیں کرسکتے کہ آج یہاں ترمیم کردیں کل وہاں قانون پاس کردیں ۔ بڑے بنیادی اصلاحات چاہئیں۔تمام نظام ناکام ہوگئے ہیں۔صوبوں کا اسٹرکچر ناکام ہوگیا ہے۔گورننس کا نظام ناکام ہوگیاہے۔وفاق اور صوبوں کے رشتے ناکام ہوگئے ہیں۔ملک کو بہت بنیادی اصلاحات چاہئیں۔ معیشت کو کیسے ترقی دیں گے اس پر بات کریں۔ ہمارے تعلقات دوسرے ممالک سے کیسے ہونے چاہئیں۔اب آپ کے پاس فیصلے ہیں آپ کے اوپر دباؤ آئے گا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں۔اگر فیصلے ملکی لیڈر شپ بیٹھ کر کرے تو اس کی بات اور ہوتی ہے۔اگر بند کمروں میں کریں گے وہ کمزوری ہوتی ہے یہ ماضی کا سبق ہے۔ٹرمپ پاکستان پر جو مہربان ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ہماری کوئی ایسی خوبی نہیں ہے ان کو کوئی ادا پسند آگئی ہے تو وہ آج آپ پر مہربان ہیں۔مودی کے خلاف ہیں کل وہ مودی کی تعریفیں کررہے تھے کل ہوسکتا ہے پھر مودی سے راضی ہوجائیں۔یہ معاملہ آپ کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے اس کو مت اہمیت دیں۔امریکا میں حکومت کرنے کا روایتی طریقہ آج ختم ہوچکا ہے اب وہاں شخصی حکومت بن گئی ہے۔
اہم خبریں سے مزید