اسلام آباد ( رپورٹ:،رانا مسعود حسین)اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ حاضر سروس ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی اختیارات و اقدامات کے مبینہ ناجائز استعمال اور جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی فرائض سرانجام دینے سے روک دینے کے حکم نامہ کیخلاف سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ آئینی درخواستیں دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل ہی کام سے روک سکتی ہے، جسٹس طارق جہانگیری کوکو کام سے روکنے سے متعلق دائر کی گئی کو۔ وارنٹو رٹ ہائیکورٹ میں قابل سماعت ہی نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل 202 کے تحت تشکیل شدہ قواعد رولز کے مطابق ہی چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتے ہیں، جبکہ’’ ماسٹر آف روسٹر‘‘ کے نظریہ کوسپریم کورٹ اپنے فیصلے میں پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کسی بھی صورت میں عدالتی اختیارات پر حاوی نہیں ہوسکتے ہیں۔ درخواست گزار ،ججوں ، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق خان کی جانب سے جمعہ کے روز آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی الگ الگ درخواستوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو اسکے رجسٹرار کے ذریعے ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس، سردار محمد سرفراز ڈوگر اور ریاست پاکستان کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کواسی ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتاہے ، جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو تو چیف جسٹس اسکے بعد نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمہ کو کسی دوسرے بنچ کومنتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔