’’سر! ایک ہفتے میں چار دن ہینڈرائٹنگ کی کلاس لینے آتے ہیں اور روزانہ چائے پیتے ہیں بلکہ اب تو کہہ کر پیتے ہیں۔‘‘ حمنہ نے کنزیٰ سے کہا۔ جو سر جُھکائے اپنی سائیکالوجی کی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ کنزیٰ ایم ایس سی سائیکالوجی کی طالبہ تھی، جب کہ حمنہ اُس سےایک سال جونیئر۔ دونوں ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی سے پڑھ رہی تھی۔ حمنہ کا گھر کنزیٰ کے گھر کے قریب ہی تھا۔ اس لیے دونوں کا بہت وقت اکٹھے ہی گزرتا۔
اکٹھے پڑھنا، ساتھ گھومنا پھرنا، بازار جانا۔ ’’تو پھر کیا ہوا… لوگ چائے کے شوقین ہوتے ہیں اور مَیں نے تو سُن رکھا ہے کہ یہ رائٹر لوگ، عام لوگوں سے کچھ زیادہ ہی چائے پیتے ہیں۔‘‘ کنزیٰ نے کاندھے اُچکاتے کہا، تو حمنہ فوراً بولی۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے، مگر اتنی گرمی میں…‘‘ ’’یار! کیا موضوع لے کر بیٹھ گئی ہو۔ چائے پینے والے گرمی، سردی نہیں دیکھتے۔ صرف چائے دیکھتے ہیں۔‘‘ کنزیٰ نے کہا، تو حمنہ مُسکراتے ہوئے اپنے لیے چائے بنانے چلی گئی۔
’’صرف چائے دیکھتے ہیں۔‘‘ کنزیٰ کے الفاظ جیسے اُس کے ذہن سے چپک کر رہ گئے تھے۔ سر شمائل کئی کتابوں کے مصنّف تھے اور ان دِنوں ’’یس کالج‘‘ سے منسلک ایک گھر میں ہینڈ رائٹنگ بہتر بنانے کی کلاس لینے آتے تھے۔ کُل پندرہ بچّے تھے، جن میں یونی ورسٹی کی طالبات صرف کنزیٰ اور حمنہ ہی تھیں۔
کلاس کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔ اب کافی دنوں سے یہ معمول تھا کہ سر شمائل ایک گھنٹہ ہینڈ رائٹنگ کی کلاس کےبعدکنزیٰ سے سائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر طویل گفتگو کرتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ جتنا وقت پڑھاتے، اُس سے زیادہ کنزیٰ سے گفتگو میں گزرجاتا۔ اور اس دوران مانگ کر چائے پیتے۔ ’’بھئی، کل تو بڑی ہی مزےدار چائے تھی۔‘‘ ’’چائے کا کپ انسان کو ایکٹیو کر دیتا ہے۔‘‘ ’’کچھ لوگ دودھ پتی پسند کرتے ہیں، حالاں کہ چائے تو ہوتی ہی تیز پتی والی ہے۔‘‘
اِس طرح کی باتیں تقریباً روز ہی سُننے کو ملتیں۔ ایک روز تو اُنہوں نے چائے پہ بہت ہی تفصیلی گفتگو کی۔ چائے دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ اس کی ابتدا کس صدی سے ہوئی۔ اس کا اصلی وطن کون سا ہے۔ یہ برِصغیر میں کب آئی۔ چائے پینے سے کون سی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ کن کن ادیبوں نے چائے کو کیسے کیسے یاد کیا۔ یہ سب کچھ انہوں نے کسی مضمون میں لکھا تھا، جس کا وہ ذکر کر رہے تھے۔ شاید یہ سب باتیں سر شمائل کے چائے پینے کا بہانہ تھیں۔
حمنہ کو چوں کہ روزانہ چائے بنانی پڑتی تھی۔ اس لیے غصّہ بھی زیادہ آتا تھا۔ اب اس غصّے کا اظہار کچھ یوں کرتی کہ سر شمائل کے ساتھ ایک کپ اپنے لیے بھی بنا لیتی۔ حالاں کہ اس کا یہ کپ معمول سے ہٹ کر تھا۔ صُبح کے وقت یا رات کو پڑھائی کے لیے جاگنا ہوتا تھا۔ اِس وقت چائے پینا اُس کا معمول تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی سرشمائل اپنے کالج میں مصروف ہوگئے اور یوں یہ ہوم ٹیوشن بھی ختم ہوگئی۔
ویک اینڈ پر کنزیٰ اورحمنہ اکٹھے ہی گروسری اور دیگر چیزوں کی خریداری کے لیے مارکیٹ جاتی تھیں۔ یہ دو ماہ بعد کی بات ہے۔ دونوں معمول کے مطابق ہفتے کی شام آٹو پہ مارکیٹ گئیں۔ حمنہ کو گروسری کرنا تھی اور کنزیٰ کو نفسیات کی کچھ نئی کتابیں خریدنی تھیں۔ مارکیٹ پہنچ کر ابھی وہ حبیب مال کے اندر داخل ہو ہی رہی تھیں کہ سر شمائل کی ایک قریبی رشتے دار خاتون سے ملاقات ہوگئی۔
کچھ عرصہ پہلے اُن کی بیٹی بھی سرشمائل سے ہینڈ رائٹنگ کی کلاس لیتی رہی تھی۔ باتوں باتوں میں حمنہ نے سرشمائل کی زیادہ چائے پینے کی عادت کی بات کی تو خاتون فوراً بولیں۔ ’’جھوٹ…سفید جھوٹ… سر تو چائے پیتے ہی نہیں۔ صبا نے کچھ عرصہ پہلے تین ماہ اُن سے ہوم ٹیوشن لی۔
انھوں نے ایک دن بھی چائے نہیں پی۔ ہمیں تو یوں بھی لگا، شاید انہیں ڈاکٹر نے چائے پینے سے منع کر رکھا ہے۔‘‘ خاتون کی بات ختم ہوئی تو کنزیٰ حیرت سے منہ کھولے حمنہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دونوں نےجلدی جلدی خریداری مکمل کی۔ کنزیٰ نے تو نفسیات کی کتابیں خریدنے کا ارادہ ہی موخر کردیا۔
مال سےنکلتے ہوئےحمنہ نے کنزیٰ کی پریشانی بھانپ لی اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’سر شمائل چائے صرف اِس لیے پیتے تھے کہ تمہارے پاس زیادہ سے زیادہ بیٹھ سکیں، مطلب تمہارے ساتھ زیادہ سے زیادہ گفتگو کر سکیں۔‘‘جواباً کنزیٰ کو ہونقوں کی طرح اپنی جانب دیکھتا پا کروہ شوخ لہجے میں بولی۔ ’’یعنی وہ چائے نہیں، کسی کی چاہت تھی۔‘‘ ’’بکو نہیں…‘‘کنزیٰ اپنی بےوقوفی اور بےخبری پر خاصی جھلّا سی گئی تھی۔
مگر گھر واپسی کے لیے آٹو پر بیٹھنے کے بعد ماضی قریب کا ایک ایک لمحہ اُس کے ذہن میں بجلی کے کوندے کی طرح لپک رہا تھا۔ ایک دم موسم تبدیل ہوا اور بارش شروع ہوگئی، لیکن اُسے اس تبدیل ہوتے موسم سے کچھ غرض نہیں تھی، اِس لیے کہ اُس کے اندر کا موسم مکمل طور پر تبدیل ہوچُکا تھا۔ وہ توجیسے ماضی کے آنگن میں کھڑی تھی۔
سرشمائل چائےکا کہتے۔ کبھی وہ بنانے کے لیے اٹھتی تو فوراً کہتے۔ ’’آپ رہنے دیں، حمنہ بنا دے گی۔‘‘ آدھے گھنٹے بعد چائے کا کپ اُٹھاتے تو یوں سپ لیتے۔ گویا اتنی گرم ہے کہ ابھی بنائی گئی ہے۔ اُس وقت تک وہ یہی سمجھتی تھی کہ سر چائے ٹھنڈی کرکے پینے کے عادی ہیں۔ توکیا…اُنہیں چائےنہیں، میرے ساتھ بیٹھنا، باتیں کرنا مرغوب تھا۔
انہی سوچوں کے ساتھ آٹو نے گھر کے سامنے اُتارا تو کنزیٰ کا پورا عبایا بھیگ چُکا تھا۔ حمنہ کے کپڑے بھی نچڑ رہے تھے۔ آئینے کےسامنے عبایا اتارتے ہوئے اُس نے حمنہ کو آواز دی۔ ’’حمنہ! ایک کپ چائے تو پلا دو۔‘‘ حمنہ بھاگتی ہوئی آئی اور اُس کی طرف ذومعنی انداز میں مُسکرا کر دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’جی حضور…ابھی لائی۔‘‘ کنزیٰ مطمئن تھی کہ حمنہ نے بارش میں بھیگے اُس کے چہرے کو تو دیکھا ہے، مگر اُن آنکھوں کو نہیں، جو کسی کی یاد میں بھیگ گئی تھیں۔