ذکی طارق بارہ بنکوی، سعادت گنج، یوپی، بھارت
جانِ حُسن اور کائناتِ رنگ و بُو کیا چیز ہے
تیری قُربت کہہ گئی اے یار تُو کیا چیز ہے
وصل کی بے انتہا سرمستیوں سے پوچھ لو
کہ سرور آرا حصولِ جستجو کیا چیز ہے
جتنی دل بر کی مِرے شکل و شمائل ہے حسیں
اتنی دِل کَش اور اتنی خُوب رُو کیا چیز ہے
کیف سے لب ریز اُس کی چشمگیں کے سامنے
ساقیا تیرا یہ مے پرور سبو کیا چیز ہے
مُجھ سے مت پوچھو کسی سے دل لگا کر دوستو
جان لو آوارگیٔ کُوبہ کُو کیا چیز ہے
مَیں خموشی کو ہی بہتر جانتا تھا اے ذکیؔ
ان سے باتیں کر کے سمجھا گفتگو کیا چیز ہے
……٭٭……٭٭……
حامد علی سیّد
کہا یہ کس نے اندھیروں سے ڈر گئے ہم لوگ
وہیں چراغ جلے ہیں، جدھر گئے ہم لوگ
رفاقتوں میں تمہاری یہ معجزے بھی ہوئے
سنگھار تم نے کیا اور سنور گئے ہم لوگ
کوئی چراغ لیے منتظر تھا بستی میں
بڑھے جو شام کے سائے تو گھر گئے ہم لوگ
ہزار جبرو ستم تھے تیری گلی کی طرف
قدم قدم پہ تھی وحشت، مگر گئے ہم لوگ
اًٹے ہوئے تھے زمانے کی دُھول میں حامدؔ
کوئی قریب جو آیا، نکھر گئے ہم لوگ
……٭٭……٭٭……
اسد رضا سحر، جھنگ
زخمی ہیں پاؤں، پاؤں کے چھالوں کی خیر ہو
اے خطۂ جُنوں، تِرے رستوں کی خیر ہو
گا کر کسی وجود کا نغمہ تمام رات
جلتے ہیں جو ہوا میں، چراغوں کی خیر ہو
دیتے ہیں روز مجھ کو نئے ذائقوں کے زخم
اے شہرِ بے اماں تِرے بندوں کی خیر ہو
ہجرت کا کہہ رہے تھے پرندے تمام تر
گاؤں میں جو کھڑے ہیں، درختوں کی خیر ہو
دیتے ہیں تجربہ بھی دعاؤں کے ساتھ ساتھ
ملّت کے سارے بوڑھے بزرگوں کی خیر ہو
غصّےمیں جارہے تھے شکاری شکار کو
یارب! مِری دُعا ہے پرندوں کی خیر ہو