• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

معقول جواب پسند آیا

شمارے پر تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی نے سوڈان کے حالات پر روشنی ڈالی اور بڑی طاقتوں کی دہری پالیسیوں کا پردہ چاک کیا۔ ڈاکٹر بینش صدیقہ نے اُردو کی پہلی سفرنامہ نگار، والئی بھوپال، نواب سکندر جہاں بیگم سے متعارف کروایا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سوشل میڈیا کو خیر کےکاموں میں استعمال کرنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ 

اُن کی تجاویز بہت اعلیٰ ہیں، اگر عمل درآمد پر توجّہ دی جائے۔ نبیل مرزا کا مضمون بےحداہم تھا۔ ثانیہ انورکے طرزِ تحریر کا جواب نہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے مسلم ممالک کو حالات کی نزاکت سمجھنے کا مشورہ دیا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں زاہدہ حنا کا افسانہ بہت ہی دل چسپ تھا، لیکن عنوان ’’نمشکار‘‘ کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ایم شمیم نوید نے انٹرویو دینے کا درست طریقہ سمجھایا۔ قاضی جمشید عالم دوسروں پر تنقید کے بجائے خُود کو سدھارنے کا سبق دے رہے تھے۔

شگفتہ فرحت نے محمّد احمد سبزواری کی یادیں، تو ڈاکٹر حسن راشد نے حیدرآباد کے محسن، سیٹھ کمال الدین کی یاد تازہ کی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط موجود نہیں تھا۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے ’’روشنی کے مینار‘‘ کے تحت صحابیٔ رسولؐ، حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ سے متعلق بہترین نگارش قلم بند کی۔

ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ کا مضمون بہت ہی معلوماتی تھا۔ حافظ بلال بشیر نے بھی ’’عالم یومِ اساتذہ‘‘ کے حوالے سے اچھا لکھا۔ نصرت عباس داسو ہجرت کرنے والے پرندوں کا ذکر لائے۔ منور مرزا نے’’پاک، سعودیہ معاہدے‘‘ پر لاجواب تجزیہ پیش کیا۔ 

ڈاکٹرایم عارف سکندری نے ایڈز کا پھیلاؤ روکنے کے ضمن میں شان دار تجاویز پیش کیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ عُمدہ مضامین سے مرتب کیا گیا، تو’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی بھی چاروں کہانیاں پسند آئیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خادم ملک کا خط جگمگا رہا تھا اور اِس بار تو آپ کا معقول جواب بھی پسند آیا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: غالباً آپ کو ہمارا جواب سمجھ ہی پہلی بار آیا، سو معقول لگا۔ اور ’’نمشکار‘‘ توبہت ہی مستعمل لفظ ہے۔ سلام یا آداب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ہندوؤں، خصوصاً بھارتیوں میں بالکل اُسی طرح عام ہے، جیسے ہمارے یہاں ’’السلام علیکم‘‘ کہنا۔ شاید ہی بالی وُڈ کی کوئی فلم ہو۔ جس میں نمستے، نمسکار، پر نام یا نمشکار کرتے نہ دکھایا جاتا ہو اور یہ تمام الفاظ اُن کے یہاں سلام ہی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

جونک کی طرح...

بس، بہت ہوگیا، اب ہم سنڈے میگزین میں کوئی خط نہیں لکھیں گے۔ ہم سےعرصۂ دراز سے زیادتی ہورہی ہے۔ بارہا احتجاج کے باوجود آپ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔ (ویسے جوئیں بھی بڑی ہوش یار ہیں، صرف غریب غرباء کے کانوں پر رینگتی ہیں، اربابِ اختیار سے دور دور ہی رہتی ہیں)۔ ہم نے کئی بار مطالبہ کیا کہ ہمارے خطوط بغیر ایڈیٹنگ کے شائع کیے جائیں، ہمیں ماڈلنگ کا موقع دیا جائے، مگر… کچھ حاصل نہ ہوا۔

اِس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہےکہ ہم آئندہ سنڈے میگزین کے لیے کوئی خط نہیں لکھیں گے۔ ہم آپ کا جریدہ چھوڑ کر جا رہے ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ہا ہا ہا… ہا ہا ہا۔ ارے بھئی، یہ سب اونگیاں بونگیاں تھیں۔ ہمارا میگزین چھوڑنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں۔ ہم تو یوں ہی تفریح کر رہے تھے۔

ہم نے سوچا، ذرا دیر کو آپ خوش ہولیں۔ ہم توبھئی، یوں ہی جونک کی طرح میگزین سے چمٹے رہیں گے اور اِسی طرح ہمارے منہ سے پھول بھی جھڑتے رہیں گے۔ ہم اپنے ابتدائی بیان سے یوٹرن لے رہے ہیں کہ جب شہباز شریف اور زرداری صاحب یوٹرن لے سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعیدآباد، کراچی)

ج: یوٹرن لینا ہی تھا، تو ایک دو ہفتے بعد لے لیتے۔ آپ نےتو سُکھ کی سانس بھی پوری طرح نہیں لینے دی اور یوٹرن لے لیا۔ ہمیں یقین ہے، آپ جونک سے بھی کچھ بڑھ کے’’چپکو‘‘ ہیں۔ جریدہ بندہو جائے یا ہم ہی داغِ مفارقت دے جائیں، تو دے جائیں، جیتےجی تو آپ سے جان چُھوٹنے والی نہیں۔

لسٹ سے خارج

ایک دفعہ پھر وہی شکایت اور وہی لہجہ، ہماری سرائیکی میں ایک مثل ہے کہ ’’سر ونجے تاں عادت ونجے‘‘ یعنی سر جائے، تو ہی عادت جائے۔ مَیں نے ایک عظیم شخصیت کے یومِ وفات کے حوالے سے ایک مضمون بھجوایا تھا، میرا خیال بلکہ یقین تھا کہ یہ21 ستمبر کے شمارے میں شائع ہوجائے گا، لیکن آپ نے اُسے نظرانداز کرکے اُس کی جگہ ایک اور شخصیت کی برسی کا مضمون شایع کردیا، جو شاید آپ کی دانست میں زیادہ بڑی ہستی ہوگی۔ 

یا پھر میرے سابقہ خطوط کے (بقول آپ کے) اندازِ گفتگو نے آپ کو اتنا برافروختہ کردیا ہے کہ آپ نے مجھے میگزین کے لکھاریوں کی لسٹ ہی سے خارج کردیا۔ بہرحال، خوش خطی کے نمبر دینے کا شکریہ۔ مَیں کوشش کروں گا کہ آئندہ آپ کو اپنی کوئی تحریر پڑھنے کی زحمت نہ دوں۔ (محمّد عارف قریشی، فرنیچر مارکیٹ، بھکر)

ج: آپ جیسے لوگ اپنی بدگمانیوں کی آگ ہی میں جلتے بلتے رہتے ہیں۔ آپ کی تحریر ادارتی پالیسی کے سبب شائع نہیں کی گئی۔ متعدّد بار عرض کیا ہے کہ جریدہ ہم اپنے گھر سے نہیں نکالتے، ادارے کی باقاعدہ ایک پالیسی ہے اور ہم اُسے سو فی صد فالو کرنے کے پابند ہیں۔ 

ہم جریدے میں ہر قابلِ اشاعت نگارش چھاپنے کے پابند ہیں، سو کسی بھی ذاتی پرخاش سے سو فی صد بالاتر ہو کر چھاپتے بھی رہیں گے۔ آپ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ ہر ناقابلِ اشاعت تحریر محض اِس وجہ سے ناقابلِ اشاعت نہیں ٹھہرتی کہ طرزِ تحریر درست نہیں ہوتا، دیگر کئی عوامل بھی ہوسکتے ہیں، جن کا گوش گزار کرنا ہم پر قطعاً لازم نہیں۔

دوسری بات یہ کہ کوئی بھی تحریر، کسی دوسری تحریرکو نظر انداز کرکے ہرگز شایع نہیں کی جاتی۔ دو شخصیات کوبڑے، چھوٹے کے تناظر میں آپ تول رہے ہیں، ہم ایسی فضول، لغو باتوں پرتوجّہ بھی نہیں دیتے۔ اور رہی بات، ہمیں زحمت نہ دینے کی، تو یہ بھی آپ کی مرضی ہے، ہم تو موصول ہونے والی بیش تر تحریریں پڑھتے پہلے، لکھاری کا نام بعد میں دیکھتے ہیں۔

رنگ برنگ پھول کِھلے

اس ہفتے کے سنڈے میگزین کے تمام مضامین انتہائی خُوب صُورت، دل موہ لینے والے تھے، مگر صحابیٔ رسول حضرت عاصم بن ثابت پر مضمون، سرویکل کینسر اور خواتین کی صحت، شہیدِ ملت لیاقت علی خان، سانحۂ کار ساز، جھیلوں کی ملکہ،جھیل سیف الملوک سمیت شمعِ توکل، واہل اور ناقابلِ فراموش واقعات جیسے مضامین بہت ہی ذوق وشوق سے پڑھے۔ 

مختصراً، سنڈے میگزین ایک گل دستے کی مانند ہے، جس میں طرح طرح کے، رنگ برنگ پھول کِھلے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ اُمید ہے، معیار پر پوری اُترے گی اور شائع کرکے بندے کی حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج:جب جب حوصلہ افزائی فرمانا ممکن ہوتا ہے، لازماً فرمائی جاتی ہے۔

’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں نام

اس بار ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے تارکینِ وطن سے متعلق بہت شان دار مضمون تحریر کیا، حد درجہ پسند آیا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں’’ ایک وڈیرے کی کہانی‘‘ کی پہلی قسط پڑھ لی، دوسری کا بےچینی سے انتظار ہے۔ بہت شکریہ، عرفان جاوید، آپ کے انتخاب کو داد دینی پڑے گی۔ 

’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اب تک تو انسانوں ہی کی داستانیں شایع ہوتی رہیں، اس مرتبہ مصباح طیّب ایک پیپل کی کہانی لے آئیں، بہت عُمدہ، بہت خوب۔ مگر ساتھ ہی اُن کا نام ’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں بھی موجود تھا۔ سلیم راجا کو بہت بہت مبارک ہو، مستقلاً چٹھی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ قرار پا رہی ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جس کی جو تحریرلائقِ اشاعت ہوتی ہے،شامل کرلی جاتی ہے، جو نہیں، وہ فہرست کا حصّہ بن جاتی ہے، اور اِس میں ہرگز کوئی معیوب بات نہیں۔ متعدّد بار وضاحت کی گئی ہے، کسی بھی تحریرکی عدم اشاعت کی واحد وجہ غیرمعیاری طرزِ تحریر ہی نہیں ہوتا، دیگر کئی وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔

ہر کوئی حال میں مست

شمارہ موصول ہو۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘(گوشۂ برقی خطوط) میں ٹیکساس، امریکا سے قرات نقوی (پاکستان کی بیٹی) کی ای میل شاملِ اشاعت تھی۔ ’’سورج سائے کے فیتے سے میرا آنگن ناپ رہا ہے۔‘‘ واہ، واہ کیا ہی کہنے، اتنے دل کش و منفرد اندازِ تحریر پر تو ونر کی سیٹ پر اُن کو ہونا چاہیے تھا۔

اِن صفحات کی توسّط سے، ایک اور بات اُن تک پہنچا دیں کہ آپ کو پاکستان سے گئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، تو اب وہ پرانی اقدار و روایات کہاں، اب تو یہاں بھی یہی حال ہے کہ کسی کو پتا نہیں ہوتا، پڑوس میں کون رہتا ہے۔ ہرکوئی اپنےحال میں مست ہے۔ 

اِسی شمارے میں میرا بھی ایک مختصر خط، ایڈیٹر صاحبہ کے اعتراضات کے ساتھ شاملِ اشاعت تھا۔ آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ دودھ، بادام اور مغز کا شمار غذاؤں میں ہوتا ہے، دواؤں میں نہیں اور ہماری رگِ حکمت اب کیا پھڑکنا تھی، اللہ کی مہربانی سےطب کے موضوع پر ایک مقابلے میں، کویت کی طبّی کاؤنسل سے باقاعدہ سند حاصل کر رکھی ہے۔

ایک بات، جذبۂ ہم دردی کے تحت لکھی گئی، اور آپ کو بُری لگ گئی؟ خیر، ٹائٹل سے سینٹر اسپریڈ تک جنّت علی نے خُوب رونق لگا رکھی تھی، تصویر نمبر8 کے تو کیا ہی کہنے۔ سونے پہ سہاگا، تحریر آپ نے خُود لکھی۔ ؎ اُس کا لہجہ کتاب جیسا ہے… اور وہ خُود گلاب جیسا ہے۔ 

شاعری کے انتخاب کے ساتھ ماڈل کے سراپے کی جو تصویرکشی کی گئی، واہ واہ۔ ویسے اِس ہفتے کی نمبرون تحریر آسیہ پری وش کی ’’شمعِ توکل‘‘ رہی۔ مصباح طیب کی نگارش،’’اللہ کے فیصلے گمان سے بڑھ کر‘‘ اور محمّد عباس کے افسانے ’’واہل‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)

ج: آپ اپنی طبی کاؤنسل کی سند ضرور فریم کروا رکھیں، مگر مفت کے مشوروں سے گریز ہی فرمائیے۔ غذا، دوا کا فرق ہمیں ہی نہیں، بچّے بچّے کو بخوبی معلوم ہے۔ قرات بھی امریکا میں مقیم ہے، مریخ پر نہیں۔ 

پاکستان اور دنیا بھر میں کیا کیا بدل گیا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کے پیغام ہی کے انتظار میں نہیں بیٹھی ہوگی۔ آپ براہِ مہربانی شمارے کے مندرجات ہی پر(اور خدارا ٹائٹل، سینٹر اسپریڈ سے ذرا باہر بھی نکل آئیں) زیادہ فوکس رکھا کریں۔

                   فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سالِ رواں کی تیسری سہ ماہی کا آخری اور آخری سہ ماہی کا پہلا شمارہ بادِ صبا بن کر کوٹھیٔ دل مہکا گیا۔ اداس رنگ ٹائٹل پہ، خاموش نظر ماڈل، بائیں کان پربایاں ہاتھ دھرے جلوہ گر تھی۔ جو اِس بات کا اشارہ تھا کہ بائیں پہلو میں واقع دلِ عاشق کہنے کو جائے دھڑکن ہے، مگر اصل میں جائے نشانہ ہے۔ گر ٹائٹل ’’سنڈے میگزین‘‘ کی جبیں ہے تو ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ چہرہ۔ جہاں اس بار بڑے اسلامی خطّے سوڈان کی خانہ جنگی کو موضوع بنایا گیا۔

سوڈان میں فوجی جنرل آج کل جوکررہے ہیں، ایسا ہی کچھ کھلواڑ ماضی بعید میں، وطنِ عزیز میں بھی ہوتا رہا ہے۔ تاہم، صدشُکر کہ فی زمانہ فضائے وطن ’’پاک سرزمین کا نظام، قوتِ اخوتِ عوام‘‘ کی مظہر ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ہماری ماڈرن سوسائٹی کے سلگتے موضوع ’’سوشل میڈیا کے شکنجے‘‘پہ قلم اُٹھایا گیا۔ اگلے صفحے پر اکتوبر کے گلشن میں عالمی ایّام خُوب گل کِھلا رہے تھے۔ 

مسکراہٹ کے عالمی دن (3اکتوبر) کے ضمن میں بجا لکھا تھا کہ ہر ہنستا مُسکراتا چہرہ جاذبِ نظر محسوس ہوتا ہے، لیکن وہ ہنستا مُسکراتا چہرہ نسوانی ہوتب ہی۔ جیسے مسکراہٹِ مونا لیزا۔ سنڈےاسپیشل حصّہ سوم تو دھوم تھری لگا کہ اُس پر دیارِ وطن میں یارانِ وطن کے قابلِ فخر اے آئی کارنامے کی گونج تھی، جی او شیرو! یادش بخیر، صدر ٹرمپ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا۔

’’پاکستانی حیرت انگیز چیزیں بناتے ہیں۔‘‘ اور وطن پرست اور مسلم امہ کے دردمند ہمارے میگزین تجزیہ نگار، منورمرزا نے حالیہ او آئی سی قطر بیٹھک کی لِسّی پِھسّی قرارداد کو خُوب رگیدا۔ ’’مسلم امہ نک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔‘‘ برادرِمن! وہ اس لیےکہ اُس کی ناک تلے نااتفاقی کا گھنا چھانگا مانگا جو ہے۔ 

مشرقِ وسطیٰ سے آگے پہنچے مقام وسطیٰ (درمیانی صفحات) جہاں صنفِ نازک کے حُسنِ انتخاب واسطے ملبوساتِ نمائش مع نسوانی آرائش جلوہ گر تھے۔ اس باربیوٹی پریڈ کا تھیم (دادِ منظوم) تھا۔ ’’تُو عروسِ شامِ خیال بھی… تُو جمالِ روئے سحر بھی ہے۔ 

جس کا دلِ بھولا بھالا نے سیدھا سادہ مطلب یہ نکالا۔ صُبح سے شام تلک… چہار سُو تیری جھلک۔ ہاہاہا! عرفان ڈائری کاورق (افسانہ) کابل مقیم ایک پوتی کا اپنے وطن مقیم دادی کے نام بظاہر ’’نمستکار‘‘ (خطِ احوال) تھا، تاہم حقیقتاً افغان کوہ سار میں عشروں سے جاری بدامنی کا نوحہ تھا۔ 

’’پیارا گھر‘‘ میں کام یابیٔ انٹرویو کے لیے امیدواران کو نو متاثرکُن گُر سکھائے گئے، دسواں مشورہ بندۂ سلیم کی طرف سے کہ لباس چھے ماہ پرانے فیشن کا ہو تاکہ انٹرویو ٹیکر (خصوصاً لیڈی باس) کی ہم سری کا احتمال نہ ہو اور خطوں کے میلے(آپ کا صفحہ)میں صبور لباس کم تر اور انصار تعاونِ گراں قدر پہ شُکر گزار تھے۔ اورہم احبابِ بزم برقی، رانا اور شمائلہ کو اپنے ناموں میں ہمیں یاد کرنے پہ کہتے ہیں۔ شکریہ پاکستان، مُسکرا پاکستان! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

گوشہ برقی خطوط

*  آج اچانک مَن میں آئی، تو میگزین کا نیٹ ایڈیشن کھولا، جہاں میری تحریر پچھلے ہفتے شائع ہوئی تھی اور مجھے اب علم ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ کبھی کوئی اور تحریر لگتی ہے تو ہمیں اس کا علم کیسے ہوگا؟؟ (تحریم عامر)

ج: جریدے کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے سے۔

* فراغت بھی بڑی نعمت ہےاور اس نعمت کا احساس مجھے امتحانات کے دوران ہوا۔ خیر سے امتحانات طے پاگئے اور اب ہر ماہ حاضری دینے کی کوشش کروں گا۔ اس ہفتے کا جریدہ بھی ہمیشہ کی طرح شان دار تھا، تمام تحاریر، خاص طور پر منور مرزا کا تجزیہ بہترین تھا، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ہم نےجو غلامی کی زنجیریں، بالخصوص حُکم رانوں نے پہن رکھی ہیں، وہ کب اُتریں گی۔ 

پوری مسلم امہ کا یہی حال ہے۔ ویسے تو اقوامِ متحدہ کے ادارے کو بھی اب تحلیل ہوجانا چاہیے کہ عالمی طاقتوں کے نزدیک اُس کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ اُس کا کام اب صرف قراردادیں منظور کرنے ہی تک رہ گیا ہے۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)

* براہِ مہربانی کتابوں کے جائزے کے سیکشن کو کچھ بہتر بنائیں۔ آپ نے اُردو سفر نامے ’’خواب اور سراب‘‘ پر جو تبصرہ کیا، پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ ایک بالکل نئے مصنّف کے سفر نامے کی اتنی زیادہ قیمت؟ 

ویسے میرے خیال میں تو جریدے میں بھی کوئی سفرنامہ سیریز یا کلاسک ناول شامل ہوسکتا ہے، جیسا کہ خالد حسینی کا ناول ’’دی کائٹ رنر‘‘ آج تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ (ڈاکٹر اقصیٰ)

ج: اگر کسی نوآموز سفرنامہ نگارنے اپنے سفر نامے کی قیمت زیادہ رکھی ہے، تو اِس میں تبصرہ کرنے والےکا کیا دوش؟ اور جریدے میں اکثروبیش ترمختلف ممالک کے سفرنامے شایع ہوتے ہی رہتے ہیں۔

* عرفان جاوید کی منتخب کردہ کہانی ’’کباڑیا‘‘ بہت پسند آئی، خاص طور پر وہ جملہ، جب کباڑیا ماسی سے کہتا ہے۔ ’’بس ڈن ہی سمجھو۔‘‘ ( ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکھرمحلہ، حیدرآباد)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk