السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
دل جیت لیا
تازہ سنڈے میگزین کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر فرید حسینی کا مضمون ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن اور قومی زبان کی ترویج‘‘ بہت ہی پسند آیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا موجود تھے، ہمیشہ کی طرح لاجواب تجزیہ پیش کر کے دل جیت لیا۔
’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ ایک لاجواب سلسلہ ہے، بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھ رہے ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے اپنے تایازاد کی جو داستان تحریر کی، پڑھ کر دل دُکھی ہوگیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
بےدریغ استعمال
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اسلام کے سچّے عاشق حضرت طفیل ؓ کا ذکرِ خیر ہوا۔ حافظ بلال بشیر نبی پاک ﷺ کے اسلوبِ تدریس پر عُمدہ مضمون لائے۔ منور مرزا ’’پاک، سعودیہ دفاعی معاہدے‘‘ پرخوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ ماڈل شیڈو ’’اسٹائل‘‘ کے لیے اچھا انتخاب لگیں۔ آپ کا سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ لاجواب ہے۔ کتابوں کے تبصرے میں ایک جملہ’’جو قومیں اپنے خاموش ہیروز کو یاد رکھتی ہیں، وہی تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔‘‘ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔
بے کار ملک کے خط کے جواب میں آپ نے جو ’’اونگیاں بونگیاں‘‘ لفظ لکھا، پڑھ کر بہت ہی ہنسی آئی اور پھر گھر میں اُس کا بےدریغ استعمال کیا اور ہاں، آپ نے گزشتہ ہفتے خوش خطی میں رانا محمّد شاہد، شائستہ اظہر، محمد سلیم راجا، حافظ عبدالرحمٰن، عارف قریشی اور جاوید اقبال کا ذکر کیا، تو بڑی خوشی ہوئی کہ کوئی توہے، جواِس دَور میں بھی خوش خطی کا قدر شناس ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)
ج: مطلب، یہ خادم ملک ٹائپ لوگوں کی اِس قدر بہتات ہوچُکی ہے کہ گھر گھر میں، ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔
دیدار بھی کروا دیا
شمارہ موصول ہوا، سرِورق سے گلاب کی خوشبو سُونگھتے، محمود میاں نجمی کی محفل میں حاضر ہوگئے، جہاں وہ جلیل القدر صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، حضرت عاصم بن ثابت ؓ کی داستانِ ہمت وشجاعت بیان کررہے تھے۔ ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تحفّظات کا اظہار کرتے منور مرزا سے اجازت لیے بغیر، آئی ایس پی آر کی تشکیلِ وجۂ تسمیہ اور ابلاغ عامہ سے تعلقات کی تفصیل و مقاصد کو خراجِ تحسین پیش کرتے، کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی جانچنے جا پہنچے۔
سانس لےکر ڈاکٹر سکندر اقبال کی خواتین کے کینسر سے متعلق تحریرسےمستفید ہوئے اور پھر شہیدِ ملّت، لیاقت علی خان کی یادوں میں ڈوب چلے۔ سحر ملتانی نے درست نشان دہی کی کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری سےاُترنےکی ابتدا اِسی سانحے سے ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالستار عباسی پاک، سعودیہ معاہدے کی حسّاسیت پر لب کُشا تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر پہنچے تو بلّےبلّے، ایڈیٹر صاحبہ بقلم خود تشریف فرما تھیں۔ چاند جیسے مکھڑے پر اشعار کی کیا مالا پروئی، واہ واہ۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سیدہ تحسین عابدی نے سانحۂ کارسازکا زخم تازہ کردیا۔ عرفان جاوید، محمّد عباس کے ’’واہل‘‘ کی آخری قسط لائے۔
ہائے، دادی اماں اور ہل ایک ساتھ ہی کُوچ کرگئے کہ زمانے کی یہی ریت ہے۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں محمّد ریحان نے جھیلوں کی ملکہ ’’سیف الملوک‘‘ کی سیر کروائی۔ اگر محکمۂ سیاحت اپنی ذمّےداریاں احسن طریقے سے نبھائے، سڑکیں آمدورفت کے قابل بنا دے، رہائش کی آسان سہولتیں فراہم کی جائیں، تو ہمارے مُلک کے سیاحتی مقام دنیا کے بہترین مقامات میں شامل ہو جائیں۔
سیاحت ہی سے اتنی آمدنی ہو جائے کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی نوبت ہی نہ آئے کہ بہت سے ممالک محض سیاحت کی آمدنی ہی سےاپنی معیشتیں چلا رہے ہیں۔ آسیہ پری وش ’’توکل اللہ‘‘ سے متعلق اچھی تحریر لائیں۔ اور راجا جی نے تو اِس بار اپنا دیدار ہی کروا دیا۔ واہ، واہ، بہت خُوب اور شائستہ اظہر کی شائستہ تحریروں کا تو کیا ہی کہنا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: راجا صاحب کا دیدار نہ ہوگیا، بانی پی ٹی آئی کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوگئی، جسے دیکھو، شادیانے بجا رہا ہے۔
خلوص و محبّت، سادگی کے ساتھ
آپ اور آپ کی ٹیم کی خدمت میں مودبانہ سلام، ڈھیروں دُعائیں۔ جب تک ہمارا مکتوب شائع ہوگا، موسمِ سرما کی آمد آمد ہوگی۔ خیر، رواں ہفتےکےجریدے میں، سب سے پہلے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے سیراب ہوئے۔ پھر پیش قدمی کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد شیروانی کی تحریر سے مستفید ہوئے۔ اِس تحریر پر تبصرہ تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نظریات کے حوالے سے بہت ہی شان دار نگارش تھی۔ حافظ بلال بشیر کی تحریر بھی گویا اپنی نظیر آپ تھی۔ نصرت عباس داسو کا مضمون ’’ہجرتی پرندوں کا عالمی دن‘‘ نئی معلومات لیے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی ’’میرا برانڈ پاکستان‘‘ کے ساتھ آئے اور ہماری تو جیسے آنکھیں کھول دیں۔ ڈاکٹر فرید حسینی اُردو زبان کی ناقدری پر اظہارِ افسوس کررہے تھے۔
عرفان جاوید کا منتخب کردہ افسانہ ’’واہل‘‘ کچھ مشکل، گنجلک سا لگا۔ البتہ ’’پیارا گھر‘‘ کی تینوں تحریریں بہت زبردست، انتہائی جامع اور متاثرکُن تھیں اوراب ذکر، اپنے صفحۂ خاص کا کہ اُس کے بیش تر شرکاء خلوص و محبّت اور سادگی کے ساتھ جو دل میں آتا ہے، لکھ ڈالتے ہیں اور… اور پھر آپ کی پیار بَھری ڈانٹ بھی سُنتے ہیں۔ بس، یہی دُعا ہے کہ بزم کی رونقیں آپ کی سرپرستی میں قائم و دائم رہیں۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)
ج:یہ شرکاء اتنےبھی سیدھے،بھولے، معصوم، مسکین نہیں، جیسا آپ سمجھتی ہیں اور ہماری بھی ہر ڈانٹ پھٹکار ہرگز پیار بَھری نہیں ہوتی۔
ذہن میں جو خاکہ تھا
اکتوبر کا دوسرا شمارہ لائبریری کی خاموشی میں بیٹھ کر پڑھ رہا ہوں۔ منور مرزا کا ’’ٹرمپ کا غزہ منصوبہ‘‘ حالاتِ حاضرہ پر اچھی تحریر تھی۔ تاہم، اِس بات کی خوشی ہے کہ ٹرمپ اپنی نام نہاد امن کوششوں کا پرچار کرکے بھی نوبل امن انعام حاصل نہیں کرسکا۔
لوگ اتنے بڑے ایوارڈ کے لیے بھی آنکھوں میں کیسے کیسے دھول جھونکتے ہیں اور حیرت ہے، ساتھ دینے والے بھی اُن کے’’امن کے داعی‘‘ ہونےکا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ جنگی ماحول میں مسلّح افواج کے محکمہ تعلیمِ عامہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اسرار ایوبی نے ادارے کا تفصیلی تعارف عُمدگی سے کروایا۔
لیاقت علی خان کے یومِ شہادت پر سحر ملتانی کی تحریر بھی اہمیت کی حامل تھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر اور رنگ برنگے دل کش ملبوسات نے واقعتاً سب کچھ ’’گلاب جیسا‘‘ کردیا۔ ویسے مجھے یہ شعر زیادہ اچھا لگا۔ ؎ یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا… بھولنا بھی عذاب جیسا ہے۔ سانحۂ کارساز پر تحسین عابدی کی تحریر بھی اچھی تھی۔ جھیلوں کی ملکہ، سیف الملوک کے خدوخال کو محمّد ریحان نے خُوب صُورتی سے اجاگرکیا۔ ’’ہمارا وطن‘‘ بہت حسین ہے، مگر قدر نہیں۔
آسیہ پری وش نے ’’شمعِ توکل‘‘ کے عنوان سے بہترین افسانہ تحریر کیا۔ محمّد سلیم راجا کا افسانہ ’’اتنی سی بات‘‘ رشتوں میں گندھا نظر آیا۔ ظاہر ہے، بچّوں کی اپنی ماں سے جو محبّت ہوتی ہے، وہ نانی سے نہیں ہوسکتی۔ اِس کیفیت سے ہم بھی کئی بار گزرے ہیں۔
ویسے راجا صاحب کی تحریروں اور لال کوٹھی کے ذریعے ہمارے ذہن میں اُن کا جو اسکیچ بنا ہوا تھا، وہ اُس سے خاصے مختلف نظر آئے، بُت ہی مسمار ہوگیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ڈاکٹر محمّد سلطان کا واقعہ بہترین تھا۔ شمائلہ نیاز کا خط پڑھتے جامعات کے طلباء و طالبات کے لکھے مقالے یاد آگئے، قرات نقوی کا برقی خط بہت دل چسپ تھا۔ ویسے مارخور کو وہ پرندہ سمجھتی رہیں، یہ پڑھ کر حیرت ہوئی۔ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: ممکن ہے، آپ کی تحریروں سے لوگوں نے آپ کا جو خاکہ اپنے ذہنوں میں بنا رکھا ہو، آپ بھی اُس سے یک سر مختلف نکلے ہوں۔ اُنھیں بھی آپ کی تصویر دیکھ کر کچھ ایسا ہی محسوس ہوا ہو۔
رونا دھونا شروع کردیا ہے
’’سنڈے میگزین‘‘ میں اپنے خط کا جواب پڑھ کر محسوس ہوا کہ شاید تمام ہی پاکستانیوں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ حکومت ہو یا ایلیٹ کلاس، بیورو کریسی ہو یا صوبائی حکومتیں ہر کوئی اپنے اپنے راگ، راگنیاں سُناتا نظر آتا ہے۔
جیسا کہ آپ نے لکھا کہ آپ کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ میرے خیال میں تو آپ کا اخبار سالانہ اربوں روپے کماتا ہے، مگر آپ نے بھی عام لوگوں کی طرح وہی رونا دھونا شروع کردیا ہے۔ (محمّد سلام، معرفت عبدالرزاق، موذن مدینہ مسجد، بنگالی کالونی، لطیف آباد، حیدرآباد)
ج: پرنٹ میڈیا کی زبوں حالی کا تو ایک عالَم رونا رو رہا ہے۔ جن کی معرفت خط بھیجتے ہیں، اُن ہی سے پوچھ دیکھیے گا کہ مساجد میں تو ہر طبقۂ فکر کے لوگ آتے ہیں یا کسی اخبار سے وابستہ صحافی سے دُوبدو ملاقات کر کے پوچھ لیں کہ آج کل اُس کے گھر کا چولھا کیسے اور کتنے دن جلتا ہے۔
فی امان اللہ
ربِ کریم سے دُعا ہے، اپنے پیاروں کے سنگ سدا خوش باش، صحت وسلامتی کے ساتھ رہیں۔ قریباً سال بعد آپ سے مخاطب ہوں۔ نہ جانے آپ نے بھی میری کمی محسوس کی یا نہیں؟ مگر مَیں ضرور آپ اور سنڈے میگزین کے ساتھیوں کے ساتھ مستقل جُڑی رہی۔ ہر بار جب اپنا صفحہ (آپ کا صفحہ) دیکھتی تو سوچتی، شاید آج کی محفل میں کسی نے مجھے یاد کیا ہو۔ خیر، اتنی خوش فہمی بھی اچھی نہیں ہوتی۔
دماغ سمجھاتا، مگردل چاہتا، کاش!کبھی تو آپ یاسنڈے میگزین کا کوئی قاری ذکر ہی کردے، تو ہمارا دل بھی خوش ہوجائے۔ اوہ! معاف کیجیے گا، مَیں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی۔ بہرکیف، غیر حاضری کے باوجود کوشش یہی رہی کہ ہر ہفتے کا میگزین پورا نہ سہی، تو اپنے پسندیدہ سلسلے ضرور پڑھوں۔ ناگوارِ خاطر نہ ہو تو ایک رسالے پر تبصرے کی بجائے اوورآل تبصرہ کرنا چاہوں گی۔
تو جناب! سب سے پہلےذکر ہو جائے، آپ کی لاجواب کاوش ’’سال نامے‘‘ کا، جو آپ اورآپ کی پوری ٹیم کی محنتِ شاقہ کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستند دستاویز کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ کرے، زورِ قلم اور زیادہ۔ ذوالفقار احمد چیمہ، پاکستان پولیس کے رول ماڈل کی ’’خُود نوشت‘‘ بالآخر اختتام کو پہنچی۔
قدرت اللہ شہاب، کے ’’شہاب نامہ‘‘ کے بعد کسی دیانت دار، محبِ وطن اور درد دل رکھنے والے سول سرونٹ کی یہ ’’خُود نوشت‘‘ ہمارے مُلک کےاعلیٰ ایوانوں سے لے کر چھوٹے تھانوں، کچہریوں میں ہونے والی کرپشن، ناانصافیوں اور ظلم کی کُھلی داستان تھی۔ اندازہ ہوا کہ کرپٹ سسٹم کی اِس چین کو توڑنا جان جوکھم کا کام ہے۔
زیادہ تر ہار مان کرسسٹم کا حصّہ بن جاتے یا پھر مایوسیوں کے اتھاہ اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو… مَیں ایک دریا کے پار اُترا، تو مَیں نے دیکھا۔ محمود میاں نجمی، ماشاءاللہ ایک بار پھر بہت ہی شان دار اور معلومات افزا سلسلے کے ساتھ آئے۔ اُن صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کے تذکرے کے ساتھ کہ جن کا احوال عموماً کتب میں کم ہی ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جزائے خیراور ادارہ جنگ کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ (آمین)
ہمارا پسندیدہ سلسلہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اب خال خال ہی نظر آتا ہے۔ یا تو لوگوں کی زندگی میں اب ہر چیز ’’قابلِ فراموش‘‘ ہوگئی ہے کہ اب تو کچھ بھی Possoble ہے۔ اس قوم نے اتنے بڑے بڑے سانحے دیکھ لیے اور دیکھ رہی ہےکہ کوئی بات، بڑی معلوم نہیں ہوتی۔ عرفان جاوید جب بھی آتے ہیں، ہوا کےخوش گوار جھونکے کی مانندکچھ نیا ہی لاتے ہیں، جیسے اِس بار بہترین افسانوں کا انتخاب کر کے قارئین کو نئے نئے افسانہ نگاروں سے متعارف کروادیا۔
کم ازکم مَیں نے تو کئی لوگوں کے نام پہلی بار پڑھے ہیں۔ بہرکیف، بہت اچھے افسانے منتخب کیے، خاص طور پر ’’اِک برسات کی رات‘‘ افسانہ۔ خوش آمدید!راجا صاحب، دوبارہ ’’سنگھاسن‘‘ سنبھالنے پر مبارک باد قبول کیجیے اوراب دوبارہ غائب نہ ہوجایئے گا۔
ویسے ’’سال نامے‘‘ میں ہفتے اور سال کی چٹھی کے علاوہ ایک نام مستقل مزاج قاری(جوہر ہفتے آپ کو خط لکھتے ہیں) کا بھی شامل ہونا چاہیے، جیسے شری مُرلی چند، پرنس افضل شاہین، سید زاہد علی، رونق افروز برقی، شہزادہ بشیر، بےکار ملک وغیرہ۔
اگر دیکھیں تو اس دورِ پُرفتن میں ہر ہفتے پابندی سے خط لکھنے کے لیے وقت نکالنا پھر پوسٹ کرنا بھی بڑی ہمّت کی بات ہے، ہماری طرف سے تو سب کوسیلوٹ اور ہاں، اسماء دمڑ کا آنا بھی بہت مبارک ثابت ہوا، ورنہ تو ہمارا پسندیدہ صفحہ بند ہی ہوجاتا۔
شائستہ اظہرکی سال کی واحد، سال کی بہترین چٹھی کا انتظار ہے۔ اب تو سال بھی پورا ہونے کو آیا، اللہ پاک سےدُعا ہے، قارئین کےاس چمن کوسلامت تا قیامت رکھے اور صفحے کے تمام پھول (لکھاری) چہکتے مہکتے رہیں۔ جانِ بزم (ایڈیٹر صاحبہ) کے کھٹے، میٹھے اور کبھی کبھی کسیلے جوابات سے رونقیں قائم و دائم رہیں۔ (ڈاکٹر تبسم سلیم، خیرپورمیرس)
ج: بخدا اور کوئی آپ کو یاد کرے، نہ کرے۔ ہمیں اکثر و بیش تر یاد آتی ہیں۔ لفافہ کھولتے ہی آپ کی ہینڈرائٹنگ دیکھ کرہی دل باغ باغ ہوگیا، خط تو بعد میں پڑھا گیا۔ ہمیں یہ کہنے میں ہرگز کوئی عارنہیں کہ آپ ہمارے چند پسندیدہ ترین خطوط نگاروں میں سے ہیں۔
عموماً کسی سے آتے رہنے کو اِس لیے نہیں کہا جاتا کہ واقعتاً اس پُرفتن دَور میں نامہ نگاری کے لیے وقت نکالنا ہرگز کوئی آسان امرنہیں اور جو یہ کررہا ہے، کمال ہی کررہا ہے۔ ’’مستقل مزاج قاری‘‘ کے ضمن میں جو چھے نام آپ نے لکھے، درحقیقت وہی اِس بزم کا اثاثہ ہیں۔
آج آپ نے ایک ایوارڈ دے دیا، ایک ہماری طرف سے بشرطِ زندگی سال نامے میں بھی مل جائےگا۔ شائستہ تواب جریدے کی باقاعدہ ٹیم ممبربن گئی ہے اور اُس کی بہترین چٹھی بھی شاملِ اشاعت ہوچکی ہے، شاید آپ کی نظر سے چُوک گئی۔
* شمارہ موصول ہوا، ثانیہ انور’’بیوگی‘‘ جیسے منفرد موضوع پر ایک انتہائی جامع تحریر کے ساتھ آئیں۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم کے پہناوے بہت دل کش تھے، خاص طور پر سیاہ وسُرخ امتزاج والا لباس۔ ماڈل البتہ ایویں ہی سی تھی۔ حسیب نایاب ’’غلامی‘‘ کے موضوع پہ رقم طراز تھے۔
ویسے غلامی کے تو کئی رُوپ ہیں۔ کبھی کبھی تو بندہ اپنے گھر/سسرال میں بھی غلام ہوتا ہے۔ یہ تو بس نصیبوں کی بات ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ’’صیقل‘‘ تو میرےسر ہی سےگزرگیا۔ سچ یہ ہےکہ مجھےتو اِس لفظ کا مطلب بھی نہیں معلوم۔
ایک پیغام کے صفحے پر لوگوں کے نام پڑھ کے سوچتی ہوں کہ آج بھی آپ کا جریدہ خاصی تعداد میں پڑھا جاتا ہے۔ حسن شیرازی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا دوبارہ حصّہ بن گئے، دیکھ کے خوشی ہوئی۔ عرفان جاوید کا نیا انتخاب، ’’فیصلہ‘‘بھی شان دارتھا۔ اگلے شمارے میں سب سے پہلے ایمان افروز تحریر پڑھی۔
ڈاکٹر عبدالستار کامضمون فکر انگیز تھا، لیکن روبوٹ جتنے بھی آگے بڑھ جائیں، انسان کوانسان کی کمپنی کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ اسٹائل کی ماڈل اور میجنٹا کلرکا ڈریس پسند آیا۔ ملک ذیشان کا دھرماراجیکا کا سفرنامہ بھی بہت ہی شوق سے پڑھا کہ مجھے اپنے وَرثے سے عشق ہے۔
دونوں افسانے بہترین تھے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں صبور مشتاق، تجمل حسین کو دیئے گئے چٹخارے دار جوابات نے بہت لُطف دیا۔ اصغر ندیم کا افسانہ ’’بٹوارہ‘‘ جیسی اَن مول تحریر زمانوں بعد پڑھنے کا موقع ملا۔ ایسے شان دار انتخاب پر عرفان جاوید کی خدمت میں توصیف کا پورا ٹوکرا پیش کرنا چاہوں گی۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
* ہمیشہ کی طرح سرِورق نظر انداز کرتے صفحہ پلٹا تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت عکرمہ ؓکی قبولِ اسلام کی داستان تحریر تھی۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ کچھ خاص نہیں لگا۔ ڈاکٹر معین الدین نے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کو مخدوش مستقبل کی بڑی وجہ قرار دیا، لیکن سچ یہ ہے کہ جو بجٹ رکھا گیا ہے، اگر وہی کرپٹ افسران سے بچا کر تعلیم پرخرچ کر لیا جائے، تو نظام میں کافی بہتری آ سکتی ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریر’’معذور‘‘ بہت پسندآئی۔منیرخلیلی کامضمون کافی معلوماتی تھا۔ ایسے ہی مضامین رسالے کو چار چاند لگاتے ہیں۔ (محمد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk