تحریر…شرجیل انعام میمن
وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ ، حکومت سندھ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو محض نام نہیں ہوتے بلکہ ایک پورے عہد، ایک مکمل نظریے اور ایک ہمہ گیر جدوجہد کی علامت ہوتے ہیں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو بھی انہی ناموں میں سے ایک ہیں، جن کا ذکر کیے بغیر پاکستان کی جمہوری تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ آمریت، جبر، اسیری اور جان کے شدید خطرات کے باوجود انہوں نے جمہوریت، عوام کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔محترمہ بینظیر بھٹو کا سیاسی کردار محض اقتدار تک محدود نہ تھا۔ وہ جمہوری تسلسل، عوامی سیاست اور نظریاتی وابستگی کی روشن علامت تھیں۔ شہید بی بی نے پاکستان میں سیاست کو اقتدار کے بند کمروں سے نکال کر عوام کے ہاتھوں میں دینے کی جدوجہد کی۔محترمہ بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جہاں سیاست کو اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ عوامی خدمت سمجھا جاتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم، عالمی تجربات اور فکری بالیدگی نے انہیں ایک خود مختار، باشعور اور صاحبِ بصیرت سیاسی رہنما بنایا۔ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے عالمی معیار کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بینظیر بھٹو کا وژن قومی سیاست سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھیں جو جمہوری اقدار، اعتدال پسندی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری پر یقین رکھتی ہو۔ اسی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر محض ایک سیاسی قائد نہیں بلکہ ایک سنجیدہ، فکری اور مدبر ریاستی رہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا۔مشہور امریکی مورخ اور صحافی اسٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب Zulfi Bhutto of Pakistan میں لکھتے ہیں کہ"بینظیر بھٹو کی سیاسی تربیت مغربی جامعات میں ہوئی، مگر ان کی سیاست کی جڑیں عوام اور مشرقی معاشرے میں پیوست تھیں، اور یہی بات انہیں دوسرے رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ "معروف برطانوی مصنفہ اور صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب Waiting for Allah میں لکھتی ہیں کہ "بینظیر بھٹو کی اصل طاقت ان کی فکری ہمہ گیری تھی۔ وہ مغربی جمہوری تصورات کو بھی سمجھتی تھیں اور مشرقی معاشروں کی نفسیات سے بھی واقف تھیں، اسی لیے عالمی رہنما انہیں ایک سنجیدہ اور بلیغ سیاست دان کے طور پر دیکھتے تھے۔"عالمی سیاست پر معروف کتاب The New Cold War? Religious Nationalism Confronts the Secular State کے مصنف مارک جورگنسمائر بینظیر بھٹو کو ان مسلم رہنماؤں میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے مذہبی انتہاپسندی کے مقابلے میں جمہوری اور سیکولر ریاست کی وکالت کی۔ ان کے مطابق "شہید بینظیر بھٹو مسلم شناخت اور جمہوری یقین کا ایک نادر امتزاج تھیں۔" اسی طرح اپنی خود نوشت Daughter of Destiny، جو اردو میں دخترِ مشرق کے نام سے شائع ہوئی، میں شہید بی بی واضح طور پر لکھتی ہیں،"میرا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ذمہ دار، جمہوری اور پرامن ریاست کے طور پر قائم کرنا تھا۔ پاکستان کی بقا آئین، عوامی شمولیت اور عالمی احترام سے وابستہ ہے، نہ کہ غیر منتخب اقتدار کے مراکز سے۔"محترمہ بینظیر بھٹو صرف پاکستانی سیاست تک محدود نہ تھیں۔ وہ جمہوریت کی ایک عالمی آواز تھیں، جن کی سوچ، تعلیم اور سیاسی بصیرت نے انہیں بین الاقوامی سطح پر وقار اور اعتماد عطا کیا۔1977 میں مارشل لا کے نفاذ اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی شہادت کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی آزمائشوں کا آغاز ہوا۔ طویل قید، نظر بندی اور جلاوطنی نے ان کے عزم کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا۔ اگر وہ اس مرحلے پر مصلحت کا راستہ اختیار کر لیتیں تو ذاتی طور پر ان کی زندگی آسان ہو سکتی تھی، مگر انہوں نے آمریت کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ یہی فیصلہ انہیں عوام کے دلوں میں ایک علامت بنا گیا۔1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ یہ صرف سیاسی نہیں بلکہ سماجی تاریخ کا بھی ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ ان کا اقتدار میں آنا خواتین کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے ایک واضح پیغام تھا کہ قیادت کا معیار جنس نہیں بلکہ صلاحیت اور وژن ہے۔اپنے پہلے دورِ حکومت میں انہوں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی، آزادیِ صحافت، طلبہ یونینز کی بحالی اور سماجی شعبوں کی ترقی پر توجہ دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں شدید سیاسی دباؤ، ادارہ جاتی مزاحمت اور عدم استحکام کا سامنا بھی رہا۔1993 میں اپنے دوسرے دورِ حکومت کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو نے سماجی تحفظ، صحت اور خواتین کی فلاح کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام اور خواتین کے لیے مالی سہولتیں اسی وژن کا حصہ تھیں۔شہید بی بی کی سیاست کا مرکز ہمیشہ عام آدمی رہا۔ ان کا یقین تھا کہ ریاست کی اصل ذمہ داری طاقتور کو مزید مضبوط کرنا نہیں بلکہ کمزور کو بااختیار بنانا ہے۔2007 میں طویل جلاوطنی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی نے قومی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ کراچی میں ان کا تاریخی استقبال اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ عوام آج بھی انہیں اپنی امید سمجھتے ہیں۔ اسی روز دہشت گرد حملے کے باوجود انہوں نے سیاسی میدان چھوڑنے سے انکار کیا۔ شہید بی بی خطرات سے پوری طرح آگاہ تھیں، مگر ان کے نزدیک جمہوریت کی بحالی ذاتی سلامتی سے کہیں زیادہ اہم تھی۔27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک دہشت گرد حملے میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں۔ اس سانحے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی رہنماؤں نے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیا، جبکہ ملک کے اندر اسے ایک ناقابلِ تلافی نقصان سمجھا گیا۔ ان کی شہادت نے شہید بی بی کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اس رہنما کے طور پر امر کر دیا جو آخری دم تک اپنے نظریے پر قائم رہیں۔شہید بی بی کا مشہور قول، “جمہوریت بہترین انتقام ہے”، آج بھی پاکستانی سیاست میں ایک اخلاقی اصول کے طور پر گونجتا ہے۔ آج پاکستان میں جمہوری تسلسل، پارلیمان کی بالادستی اور ووٹ کے تقدس پر ہونے والی بحث محترمہ بینظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانی کی مرہونِ منت ہے۔ ان کی شہادت نے ثابت کیا کہ نظریات کو طاقت کے زور پر دبایا تو جا سکتا ہے، ختم نہیں کیا جا سکتا۔ شہید بی بی کی سیاست آنے والی نسلوں کے لیے ایک معیار ہے کہ اقتدار عارضی ہوتا ہے، مگر اصول دائمی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک درخشاں مگر دردناک باب ہے۔ وہ ایسی رہنما تھیں جنہوں نے قوم کو جمہوریت کے لیے جینا اور مرنا سکھایا۔ آج بھی ان کا نام جمہوری جدوجہد، عوامی سیاست اور قربانی کی علامت کے طور پر زندہ ہے۔