• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر بھٹو کا قتل، اٹھارہ سال بعد بھی ایک ’’معمہ‘‘ کیوں؟

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ستائیس دسمبر بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق جیو نیوز کے خصوصی پروگرام ’جرگہ‘ کے میزبان سلیم صافی نےاپنے تجزیئے میں کہا کہ بینظیر بھٹو کا قتل،اٹھارہ سال بعد بھی ایک ’’معمہ‘‘ کیوں؟ ۔ سینئر صحافیوں شکیل انجم اور رئوف کلاسرا نے میزبان سے گفتگو میں کہا کہ بے شمار گرے ایریاز ہیں ہر وہ راستہ بند کر دیا گیا جو کسی طاقتور فرد یا ادارے کی طرف جاتا تھا، اسکاٹ لینڈ یارڈ سے رپورٹ شیئر ہی نہیں کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سنیئر انویسٹی گیٹو جرنلسٹ شکیل انجم نے کہا کہ بے نظیر قتل کے معاملے میں بے شمار گرے ایریاز موجود ہیں اگرچہ جیسے ہی گولی چلی ہماری غیر سنجیدگی کا آغاز وہیں سے ہوجاتا ہے چھوٹی چھوٹی بے شمار چیزیں ہیں جس نے کیس کو بہت زیادہ الجھا دیاگیا جو بھی سمت کسی گروہ یا انفرادی شخص یا کسی ایجنسی کی طرف جاتا تو وہ راستہ پہلے ہی بند کر دیا جاتا تھا۔ مثال کے طو ر پر ایک جنرل کا نام تھا کہ انہوں نے کرائم سین دھلوا دیا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں اتنی نالائق ہیں کہ یو این ہو، اسکاٹ لینڈ یارڈ ہو یا اپنی ایجنسیاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے سینتیس نکات پر دائرے میں لے لیا کہ اس سے باہر نہیں نکل سکتے انہوں نے احتجاج کیا۔ جب میں نے دوبارہ خبر دی تو میرے خلاف خوفناک کارروائی کی گئی کہ میں بے نظیر کے قتل کی خبریں نہیں دے سکتا انہوں نے کسی اور کی ڈیوٹی لگا دی یقینا اس میں بیرونی طاقتیں بھی تھیں لیکن ہمارے اپنے زیادہ تھے۔ بڑے بڑے وزراء سے پوچھ گچھ ہوئی سب نے اپنا نقطہ نظر لکھ کر دیا رحمان ملک نے اپنا نام ختم کرادیا۔رحمان ملک بے نظیر بھٹو وغیرہ ایک جگہ موجود تھے وہاں ایک شخص کہتا ہے کہ رپورٹس ہیں کہ آپ کو خطرہ ہے آپ کو نہیں جانا چاہئے جس پر بینظیر کے جواب دینے سے پہلے رحمان ملک بول پڑے کہ ہم کیوں نہ جائیں ہم تو جائیں گے یعنی یہاں بھی رحمان ملک نے کردار ادا کیا کہ بی بی قائل نہ ہوجائیں کہ نہیں جانا۔مجھے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے منع کردیا تھا تو میں کتاب لکھنے میں مصروف ہوگیا۔

اہم خبریں سے مزید