کراچی (ذیشان صدیقی/ اخترعلی اختر) 18ویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرا روز، محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام رہا۔کتابوں کی خوشبو، فلم اور موسیقی پردلچسپ گفتگو نے حاضرین کے دل جیت لئے۔ عالمی مشاعرہ، بیاد بے نظیر بھٹو سمیت کئی لا جواب پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ افتخار عارف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جس قدر محبت اور عقیدت ملی، وہ کسی اور سیاسی رہنما کے حصے میں نہیں آئی۔تفصیلات کےمطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”18ویں عالمی اردو کانفرنس2025 ۔ جشن پاکستان“ کے تیسرے روز ادبی سرگرمیاں عروج پر رہیں، آٹھ کتابوں کی رونمائی کی گئیں، تہذیب حافی ، عمیر نجمی کے ساتھ سیشن ہوئے، جبکہ عالمی مشاعرہ، بیاد بے نظیر بھٹو سمیت 22 سیشنز کا انعقاد کیاگیا، جس میں اردو غزل ، اردو ناول ، یارک شائر ادبی فورم ، پختون ثقافت و ادب، پنجابی ادب و ثقافت ، موسمیاتی تبدیلی، پاکستان کو درپیش بحران ، انتظار حسین کے سو برس ،خون سے جب جلا دیا. پیرزادہ قاسم رضا صدیقی اور کوئی تو پھول کھلائے افتخارعارف ، ہمارا تعلیمی معیار، موسیقی کا سفر اور بدلتے رجحانات، جاپان میں اردو، یادِ رفتگاں، اردو کی بستیاں، کشمیر کا مزاحمتی ادب ، بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے۔جشن سالگرہ، فلم کا سفر، شہید بے نظیر کی یاد میں ”مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے“ کے لاجواب اجلاس شامل تھے، جبکہ اردو کانفرنس میں تھیٹر ”جون اور میں“ پیش کیا گیا جو شائقین کی توجہ کا مرکز رہا۔ بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے میں مرزا غالب کی جشن سالگرہ کے حوالے سے اجلاس ہوا، جس میں فراست رضوی نے کہاکہ دہلی میوزیم میں غالب کے خلاف رپورٹ آج بھی موجود ہے۔ مرزا غالب ساری زندگی اپنے زمانے سے لڑتے رہے۔ غالب کے زمانے میں لوگوں نے ان پر بہت اعتراضات کئے جس میں سے کچھ اعتراضات درست بھی تھے لیکن ان اعتراضات نے ہی غالب کو فروغ دیا۔غالب نے 43 سال کی عمر کے بعد کوئی شعر نہیں لکھا۔ غالب کے اندر کی انا کئی جگہ غیر فطری تھی۔ ”کوئی تو پھول کھلائے ۔افتخار عارف کے ساتھ سینیٹر فیصل سبزواری نے گفتگو کی۔ فیصل سبز واری نے افتخار عارف کا استقبال اشعار پڑھ کر کیا، افتخار عارف نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ میں نے شاعری سے آغاز کیا، پھر ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ میری لندن میں قیام کے دوران لکھی گئی ایک نظم غیرمعمولی طور پر مقبول ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہجرت محض نقلِ مکانی نہیں، بلکہ ایک بلند مقصد اور بڑے خواب کی تکمیل کے لئے کی جاتی ہے، جو انسان کی فکر اور تخلیق پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔پنجابی ادب و ثقافت کے سیشن میں ثروت محی الدین، ضیاءالحسن ، رخشندہ نوید، اور بینا گوئندی نے پنجاب سمیت عربی شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کیا، جن میں شو کمار بٹالوی ، امرتا پریتم ، موہن سنگھ ،شریف کنجاہی ، استاد دامن ، حبیب جالب ، منشا یاد، افضل احسن رندھاوا،نسرین انجم بھٹی ،احمد سلیم ، سائیں اختر حسین لاہوری ، افضل توصیف ، صوفی تبسم ، شفیع عقیل و دیگر شامل تھے۔ ”موسمیاتی تبدیلی۔ پاکستان کو درپیش بحران“ پر عافیہ سلام، سیمیں کمال، رفیع الحق اور طارق قیصر نے ماحولیات کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے سیر حاصل گفتگو کی ،مقررین نے کہاکہ پاکستان میں پانی کا بحران انتظامی ناکامی اور ناقص نکاسی کے نظام کا نتیجہ ہے، جھوٹ تیزی سے پھیلتا ہے، جبکہ سچ دیر سے پہنچتا ہے، یہی سب سے بڑا خطرہ ہے، اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم اور جغرافیہ کی تربیت نہ ہونے سے نئی نسل بحران کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ”موسیقی کا سفر اور بدلتے رجحانات“ میں ملک کے نامور موسیقار اور گلوکاروں نے شرکت کی، جس میں ارشد محمود، گلوکارہ ٹینا ثانی، شریف اعوان، سلمان علوی، امجد شاہ اور اظہر حسین نے موسیقی کے مختلف پہلووں پر اظہارِ خیال کیا، جبکہ نظامت کے فرائض امجد شاہ نے انجام دیئے۔ شرکاءنے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی فنکاروں کو مقامی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملتی، جس کے وہ مستحق ہیں، شریف اعوان نے نصرت فتح علی خان اور استاد نصیر الاقوامی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ فنکاروں کی خدمات کو اجاگر کرنے کی روایت کمزور ہے، جس کے باعث کئی باصلاحیت افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔سلمان علوی نے ٹیلی وژن کے کردار کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں فلمیں زیادہ تر موسیقی کی وجہ سے کامیاب ہوتی تھیں اور ٹی وی نے عالمگیر، محمد علی شہکی اور سجاد علی جیسے گلوکاروں کو عوامی سطح پر پہچان دی۔ ٹینا ثانی نے ابتدائی دور کے تخلیقی ماحول کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بڑے فنکار ایک ہی چھت تلے موجود ہوتے تھے اور نوجوان گلوکاروں کو براہِ راست ان سے سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ اظہر حسین نے کہا کہ نثار بزمی اور ناشاد کے آنے سے موسیقی کا انداز بدلا اور عالمی معیار سے جڑنے کا موقع ملا۔ ارشد محمود نے اپنی تخلیقی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روایت جامد نہیں بلکہ محفلوں اور نشستوں سے آگے بڑھتی ہے۔ موسیقی صرف تفریح نہیں بلکہ سماجی اور فکری شعور کی تشکیل کا ذریعہ ہے۔ ”ہمارا تعلیمی معیار“ میں طارق رفیع، صادقہ صالح الدین، سروش لودھی، مجیب صحرائی، یوسف خشک، آصف شیخ، وحیدہ مہیسر نے گفتگو کی ۔ اس موقع پر مقررین نے کہاکہ ہمارا تعلیمی نظام بہت تیزی سے نیچے کی طرف جارہا ہے، گرتے ہوئے معیار کو بہتربنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس معاشرے میں پرائمری ٹیچر کو پھٹیچر سمجھا جاتا ہو وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے۔صادقہ صلاح الدین نے کہاکہ نئے اسکولوں کی تعمیر اور نئے اساتذہ کی بھرتی تو کرلی گئی ہے لیکن اس کے بہتر نتائج ملیں گے یا نہیں اس کے لئے انتظار کرنا ہوگا۔ طارق رفیع نے کہا کہ اگر ملک کی معیشت اچھی ہوگی تو بچے ملک سے باہر کیوں جائیں گے۔ پنجاب میں جامعات کی تعداد سندھ سے دگنی ہے لیکن 15 ارب دیئے جاتے ہیں جبکہ سندھ میں 50 ارب فنڈز جامعات کو حکومت سندھ کی جانب سے ملتے ہیں، خیبرپختونخواہ میں یہ بجٹ صرف دو ارب ہے۔