کرکٹ کے کھیل میں، میں نے پوری دنیا دیکھی ہے، رنگ برنگی دنیا، جہاں جہاں کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے وہاں کرکٹ کو پسند کرنے والے مجھ سے محبت کرتے ہیں، ان میں ہر عمر اور تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں جو مجھے ملتے ہیں تو میرے ماتھے پر بوسہ دیتے ہیں، ہاتھوں کو چومتے اور میری درازی عمر کی دعا کرتے ہیں ۔ اور میں اپنے اللہ کے حضور شکر کے جذبات کے ساتھ سربسجود ہو جاتاہوں۔ میرے وہ پرستار جو میرے ساتھ تصویر بنانے او ر آٹو گراف لینے کیلئے گھنٹوں میرے ہوٹل کے نیچے میرا انتظار کرتے ہیں دنیا میں جہاں بھی کرکٹ کھیلنے جائوں چاہنے والوں اور میرے کھیل کی تعریف کرنے والوں اور ان کی پسندیدگی کے اظہار کے واقعات ایسے بھی ہیں جو ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز ہیں لیکن یہ سارے خوش کن، دلرُبا، حسین مناظر اور خوش شکل لوگ ایک طرف۔ یہ سارے وقت کے ساتھ ساتھ بھول جانے والے منظر ہیں اور ایسے واقعات کی تفصیل اور فہرست بڑی طویل ہے، لیکن شاید میں ان بچوں کو پوری زندگی نہ بھول پائوں جن کے ساتھ ان دنوں میں وقت گزارتا ہوں اور کبھی کبھی کرکٹ بھی کھیلتا ہوں۔ یہ جنوبی وزیرستان کے وہ بچے ہیں جودہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشن کے باعث بنوں اور ملحقہ علاقوں میں اپنے خاندان کے ہمراہ کچے پکے مکانوں اور کیمپوں میں مقیم ہیں۔
دنیائے کرکٹ کا عظیم پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی بے تکان بولے جارہا تھا ۔ تیز تیز جس تیزی کے ساتھ وہ رنوں کے ڈھیر لگاتا ہے اور شاید اس سے بھی تیز تیز... لیکن پھر اس کی آواز قدرے دھیمی پڑ گئی ،کرکٹ کا ہیرو بتارہا تھا۔ میں ان بچوں کے ساتھ ایک میچ کھیل رہا تھا، منتظمین نے چھوٹا سا گرائونڈ بناکر اطراف میں خاردار تاریں لگا دی تھیں تاکہ تماشائی بچے اور دوسرے لوگ گرائونڈ میں نہ آسکیں ، لیکن کھیل کے دوران چند بچے خاردار تاروں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے گرائونڈ میں داخل ہوگئے۔ وہاں موجود انتظامیہ کے لوگ انہیں روکنے کے لئے شور مچاتے رہے لیکن یہ بچے گرتے پڑتے اور بھاگتے ہوئے میرے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہیرو کی آواز میں ٹھہرائو کے ساتھ ساتھ جذبات کی نمی بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ بتا رہا تھا مجھ سے ان بچوں نے ہاتھ ملانے کیلئے میری طرف بازو بڑھائے مگر میں نے دیکھا ان کی ہتھیلیوں سے خون رس رہا تھا ...خاردار تاروں نے ان کے بازوئوں پر خراشیں ڈال دی تھیں جن سے خون کی لکیریں سی بنی ہوئی تھیں۔ ایک بچے نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ میرا ہاتھ خراب نہ ہو جائے پھٹی ہوئی قمیض کی آستین سے پہلے اپنی ہتھیلی کا خون صاف کیا اور پھر میری طرف ہاتھ بڑھا کر پشتو میں کہا ’’میں بڑا ہو کر شاہد آفریدی بنوں گا‘ بوم بوم بنوں گا‘‘
اتنے میں آواز بلند ہوئی کھانا لگ گیا ہے۔ یہ پختون بھائیوں کی ایک محفل تھی کرکٹ کے ہیرو شاہد آفریدی کے اعزاز میں، اس عشائیہ کا اہتمام میجر (ر) عامر نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر کیا تھا کرکٹ کے ہیرو شاہد آفریدی کو کوہاٹ روانہ ہونا تھا جہاں اپنے والد کے نام سے موسوم اسپتال کی تعمیر کی افتتاحی تقریب تھی تاہم اپنے دیرینہ تعلق، مشترکہ دوستوں کے اصرار، میزبان کی محبت اور روایتی پختون کھانوں کی ترغیب نےانہیں اسلام آباد میں قیام پر آمادہ کرلیا ۔ مختصر اور چنیدہ مہمانوں میں سینیٹر شاہی سید، شاہد آفریدی کے چچا کرنل (ر) اکرم آفریدی ،اُن کے دوست خالد آفریدی کے علاوہ اے این پی کے کچھ رہنما بھی شامل تھے۔ جیو ٹی وی کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ کے میزبان سلیم صافی جو معروف کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اب تجزیہ نگاروں کی فہرست میں بھی سرفہرست ہو چکے ہیں میجر(ر) عامر کی تقریبات میں ’’مستقل مندوب‘‘ کی حیثیت اختیارکر چکے ہیں۔ ان کی موجودگی اور گفتگو میں نمایاں شرکت سے محفل پر پروگرام ’’جرگے‘‘ کا گماں ہوتا تھا۔ چونکہ محفل کے تمام شرکاء پختون تھے اس لئے یہاں ہونے والی گفتگو بھی پشتو میں ہی ہو رہی تھی اس لئے کچھ لفظوں سے ہی پتہ چلتا تھا کہ موضوع کیا ہے۔ سلیم صافی حال ہی میں لندن میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ اپنا پروگرام ’’جرگہ‘‘ کرکے آئے ہیں جس کے کچھ پروگرام آن ایئر بھی ہو گئے ہیں۔شرکاء آئیڈئیے اور پروگرام کو سراہ رہے تھے اسی دوران جناب محمد صادق تشریف لے آئے۔
افغانستان میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے ’’سفارتی معرکے‘‘ انجام دینے کے بعد ان دنوں وہ ’’سیکریٹری نیشنل سکیورٹی کمیٹی‘‘ کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، ہر وقت چہر ے پر مسکراہٹ سجائے، دھیمے لہجے میں جملوں اور محاوروں کے ساتھ شائستہ اُردو بولنے والے صادق صاحب پر گمان بھی نہ تھا کہ’’ وہ بھی پشتو اسپیکنگ نکلیں گے‘‘ بہرحال کھانے کے بعد ہونے والی گفتگو کی نشست میں برادرم سلیم صافی نے یہ احسان کیا کہ گفتگو کا آغاز اُردو میں کیا تو ماحول خوب جما۔
پاکستان تحریک انصاف کے ننکانہ صاحب میں ہونے والے جلسہ عام میں شیخ رشید نےجو زبان استعمال کی اور بالخصوص عمران خان کی جانب سے تیس نومبر کی دی جانے والی کال کے تناظر میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچ کر مرنے مارنے اور جلائو گھیرائو کی ترغیب دینے کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں شرکاء اسے ایک خاص تناظر میں دیکھ رہےتھے۔ جبکہ شاہی سید نے خاصے مشتعل انداز میں اپنے ردعمل میں کہا کہ’’ اگر یہی باتیں عوامی نیشنل پارٹی کا کوئی لیڈر کرتا تو اسے غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر اب تک پاکستان کا دشمن ٹھہرادیاجاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے جلسے میں اتنی اشتعال انگیز تقریر پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو پھر جمہوریت اور حکومت دونوں کا ہی خدا حافظ ہے‘‘
اس حوالے سے عمران خان کے سیاسی کردار پر گفتگو کے دوران کئی شرکاء کرکٹر عمران خان کے پرستار نکلے جن میں خود میزبان میجر (ر) عامر بھی شامل تھے ۔ لیکن سب کی پسندیدگی کرکٹر عمران خان کیلئے تھی، سیاستدان عمران خان کیلئے کسی کے دل میں نرم گوشہ نہیں تھا بالخصوص ان کے انداز سیاست سے تو سب ہی متنفر دکھائی دیتے تھے حتیٰ کہ خود کرکٹ کے ہیرو شاہد آفریدی بھی۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کرکٹ گرائونڈ میں نظر آنے والے ہیرو شاہد آفریدی۔۔ خاصے مختلف نظر آئے۔ اُن کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کےلئے اُن کے دل میں محبت ہی محبت ہے۔ کیونکہ اپنے مخالفین اور حاسدین کے خلاف تمام منفی جذبات وہ اپنی تلخ گفتگو میں صاف گوئی کا مظاہرہ کر کے دل سے نکال دیتے ہیں اور اس لئے بعض لوگوں کے نزدیک وہ بدتمیز ہونے کی حد تک منہ پھٹ ہیں۔ اپنے سینئر کرکٹر عمران خان کے بار ے میں شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ مجھے خان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا کبھی کوئی اتفاق نہیں ہوا وہ بہرحال میرے سینئر ہیں اور اُن کا احترام اور سینئر کی عزت کا سبق ہمیں اپنے گھروں میں سکھایا جاتا ہے جو ہماری تربیت کا حصہ ہے، میں خان صاحب کی کرکٹ کا فین ہوں لیکن ان کے انداز سیاست کا ہرگز نہیں اور یہ بات میں نے اُن کے سامنے اُس وقت کہی تھی جب انہوں نے دھرنوں کا سلسلہ شروع بھی نہیں کیا تھا۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ عمران بھائی آپ کا بڑا نام ہے لیکن سیاست میں یہ انداز ٹھیک نہیں ۔