کرپشن کے خلاف قومی احتساب بیورو (NAB) کی حالیہ کارروائیوں سے پاکستان میں (کسی بھی طرح ) دولت حاصل کرنے والے طبقات پریشان اور پاکستانی عوام حیران اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ عوام کی اس حیرانی اور تشویش کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ (1) ماضی میں انسداد کرپشن کے نام پر بارسوخ طبقات کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ملک میں شفافیت لانے کے بجائے زیادہ تر سیاسی سودے بازی کے لئے استعمال کی گئیں۔ (2)کرپشن کے ذریعے مال و جائیداد بنالینے والے (خواہ ان کا تعلق سرکاری محکموں سے ہو یا پرائیویٹ اداروں سے یا ایسی دولت بذریعہ سیاست کمائی گئی ہو ) قانون کی پاسداری کرنے والے اصول پسند اور دیانت دار سرکاری افسران سے کہیں زیادہ بارسوخ ہیں۔ (3) عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر قانون سازی کے اختیارات حاصل کرلینے والے کئی افراد خود کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے (Beneficiary) ہیں۔
احتساب کا قانون اس ملک میں برسوں سے موجود ہے ۔ ان قوانین سے اختیارات پانے والا احتساب بیورو جمہوریت کی بحالی کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال کے سربراہ بننے کے بعد ہی فعال ہوا ہے۔ اس بیورو کے سابق چیئرمین کے دور میں تو یہ ادارہ اپنے آئینی فرائض کی ادائی میں بہت حیلے بہانے کرتا رہا۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا تقرر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام بطور چیئر مین 2017 ء میں قائد حزب اختلاف سیدخورشید شاہ خان نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو تجویز کیا تھا۔ واضح رہے کہ بیورو کے گزشتہ چیئرمین قمر زمان چوہدری کا نام بھی پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے 2013ء میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تجویز کیا تھا۔ 2013ء کے بعد کئی اہم کیسز کی تحقیقات NAB کے پاس تھیں۔ قمر زمان چوہدری کے دور میںاحتساب بیورو کے طرز عمل نے حکمراں طبقے کو تو مطمئن لیکن پاکستان کے قانونی شعبوں کو بالخصوص اور قوم کو بالعموم مایوسی میں مبتلا کیے رکھا۔ 2016ء میں پانامہ پیپرز میں پاکستان کے حکمران خاندان کا نام آنے کے بعد چیئر مین قمر زمان چوہدری کی عدم فعالیت کے باعث ہی سپریم کورٹ نے مختلف تحقیقاتی اداروں کے افسران پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی تھی۔ اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو کارروائی کا حکم دیا۔ احتساب عدالت نے کئی سماعتوں پر مشتمل طویل کارروائی کے بعد جمعہ 6 جولائی کو فیصلہ سناتے ہوئے تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو دس سال ، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد صفدر کو بالترتیب سات اور ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ان کے خلاف مزید مقدمات ابھی زیرسماعت ہیں۔ اس فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف آنے والا فیصلہ ظلم و زیادتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ احتساب عدالت کے اس فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر لاہور سمیت صوبہ پنجاب اور ملک کے دیگر شہروں میں کوئی خاص احتجاجی یا خیرمقدمی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ چند سو سیاسی کارکنوں کے اپنی اپنی پارٹی لائن کے مطابق ردعمل کو عوامی ردعمل نہیں کہا جاسکتا۔
دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے ، صدارت پر 2008ء تا 2013ء جمہوری طریقے سے فائز رہنے والے آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کی تحقیقات کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے آصف علی زرداری کے بیرون ملک سفر پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے اس معاملے پر ہونے والے پارٹی اجلاس کے بعد اس کاروائی کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کے خلاف نہ کوئی چارج شیٹ جاری ہوئی ہے اور نہ اس معاملے پر کوئی جرح ہوئی ہے۔ ان کا نام بغیر کسی ثبوت کے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ جبکہ نااہل ہونے کے باوجود بھی نواز شریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیاتھا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ قبل از انتخابات دھاندلی ہے۔
ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہنے والے اور دو بڑی جماعتوں کے سربراہان، پاکستان کے انتہائی بااثر افراد ہیں۔ ان کے اور دیگر کئی افراد کے بارے میں مقدمات کے فیصلے یا وفاقی اداروں کی جانب سے تحقیقات ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ملک بھر میں انتخابی مہم جاری ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی گزشتہ دس سال سے مرکز میں باری باری اور پنجاب اور سندھ میں مسلسل برسراقتدار رہی ہیں۔ ان کے مدمقابل 2013-18میں خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار رہنے والی جماعت تحریک انصاف ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی کھلی مخالفت کرتے رہنے والی یہ جماعت قانون سازی کے مراحل میں کئی بار مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا بڑی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ساتھ دیتی رہی ہے۔ 90ارب ڈالر سے زائد غیر ملکی قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک کے ارکانِ پارلیمان کی تنخواہوں اور مراعات میں بلا جواز اضافہ کردینا اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ واضح رہے کہ 2018-19کے فنانس بل میں اسمبلی کی مدت کے آخری دن خاموشی سے ایک ترمیم کردی گئی ، اس ترمیم کے تحت غریب قوم کے منتخب ارکان پر ہونے والی نوازشات کا دائرہ ان کی بیوی/شوہر تک بھی وسیع کردیا گیا۔ یاد رہے کہ 2016ء میں بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا تھا۔
سیاسی جماعتوں کے امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں ووٹرز کے پاس جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہوں یا حلقوں کے امیدوار، سب ہی عوام کے سامنے مخالف پر کرپشن، بدعنوانی، نااہلی کے الزامات لگارہے ہیں اور خود کو ترقی، انصاف اور نظام کی بہتری کا دعویدار بناکر پیش کررہے ہیں۔ عام لوگ ایسی باتوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ کراچی کے مختلف حلقوں میں تو میں نے یہ دیکھا ہے کہ امیدوار قومی اسمبلی سے شہری اپنے اپنے علاقوں میں کچرے کے ڈھیر، پانی کی قلت، سیوریج لائنوں کی بندش، بجلی کی فراہمی میں تعطل، ٹرانسپورٹ کی دشواریوں جیسے مسائل پر بات کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ مسائل تو بلدیاتی اداروں سے متعلق ہیں۔ رکن قومی اسمبلی کا ان معاملات سے کیا لینا دینا۔ لیکن قومی اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار ہیں کہ ووٹر سے یہ مسائل حل کردینے کے وعدے کیے چلے جارہے ہیں۔ ملک میں تیزی سے پھیلتی کرپشن روکنے کے لئے کسی منصوبے پر کہیں کوئی بات نہیں ہورہی۔ عدالتوں کے اختیارات کو کسی قسم کی مداخلت سے بچانے کا وعدہ نہ ووٹرز لے رہے ہیں نہ ہی امیدوار ایسے کوئی وعدے کررہے ہیں۔ انسداد کرپشن کے اداروں کو عدم فعالیت سے بچانے کے لئے کوئی مکینزم ووٹرز کے سامنے نہیں رکھا جارہا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آئندہ الیکشن میں واضح کامیابیوں کی صورت میں عدالتی فیصلوں کو تبدیل کردینے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ احتسابی عمل سے متاثر ہونے والے افراد اگر اسمبلی میں اکثریت پانے میں کامیاب ہوگئے تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اراکین قانون سازی پر نظر ثانی کے عدالتی اختیارات ، قومی احتساب بیورو (NAB) اور دیگرکئی اداروں کے بارے میں کیا فیصلے کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)