پنجاب حکومت ترقی کے ایک جامع ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور زراعت اس کا مرکزی حصہ ہے۔ پنجاب صرف اناج ہی نہیں بلکہ زراعت پر مبنی انڈسٹری کیلئے خام مال بھی فراہم کرتا ہے۔یہ انڈسٹری مقامی مارکیٹ کی ضروریات کے علاوہ برآمدات کیلئے مصنوعات بھی فراہم کرتی ہے۔
وطن عزیز کے بیرونی زرمبادلہ کا بہت بڑا حصہ زراعت ہی کے ذر یعے حاصل کیا جاتا ہے جس میں پنجاب کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔لائیوا سٹاک ہماری مجموعی جی ڈی پی کا 11.8 فیصد جبکہ مجموعی طور پر زرعی سیکٹر کا 55 فیصد ہے ۔ لائیواسٹاک کا 40سے 43فیصد حصہ پنجاب میں پایاجاتاہے۔پنجاب کی فوڈ انڈسٹری جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان میں دوسری بڑی صنعت ہے اور یہ کہنا بجا ہو گا کہ پنجاب کی زراعت نا صرف کروڑوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہے بلکہ ہماری صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل وشوگر ملز،خوردنی تیل ،چاول کی صنعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے کروڑوں لوگوںکا روزگار وابستہ ہے -
پنجاب حکومت کی پالیسی اور نفاذ کا مرکزی محور دیہی معیشت کی ترقی ہے۔مقامی سطح پر تمام کوششوںکے باوجود زراعت کو چیلنجز درپیش ہیں۔ متعدد علاقائی اور عالمی عوامل کی وجہ سے زرعی پیداوار کی قیمتوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ کاشتکاری کے پرانے اور فرسودہ طریقہ کار کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری فی ایکڑ زرعی پیداوار تیزی سے زوال پذیر ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور زرعی تحقیقاتی اداروں نے شعبہ زراعت میں جدید تحقیق کی طرف توجہ نہیں دی۔ مجھے اس با ت کا پورا یقین ہے کہ زراعت کو ریسرچ کے ساتھ منسلک کرنے اور گراس روٹ لیول پر کاشتکاروں تک جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی تک ہم اپنی بھرپور زرعی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔تمام اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مشاورت پنجاب حکومت کا طرّہ امتیاز ہے۔اسی تصور کیساتھ میں نے ایک ہفتہ قبل پنجاب ایگریکلچر کانفرنس 2016ءکاانعقاد کیا جس میں زرعی ترقی سے وابستہ تمام اہم متعلقین اکٹھے ہوئے۔ ٹھوس تجاویز اور سفارشات مرتب کرنے کیلئے کسانوں کے نمائندوں ، زرعی ماہرین اور گورنمنٹ حکام پر مشتمل ورکنگ گروپ بنائے گئے، مذکورہ تجاویز اور سفارشات صوبائی زرعی پالیسی کا حصہ بنائی جائیں گی۔اس موقع پر میں نے کسانوں کی فلاح وبہبود اور زراعت کی ترقی کیلئے 100 ارب روپے کے دو سالہ پیکج کا اعلان کیا۔ یہ رقم ترجیحی طور پر ان شعبوں میں صرف کی جائے گی جن کی نشاندہی کرکے تجاویز کانفرنس کے شرکاء نے دی ہیں۔مربوط پالیسی کی تشکیل کیلئے میں نے پنجاب ایگریکلچر کمیشن کی سربراہی کا بھی فیصلہ کیا ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا اور زراعت کے شعبے کو باقاعدگی سے مانیٹرکرے گا۔اس ادارہ جاتی انتظام کے ذریعے میں آپ کو اس پر مکمل عملدرآمد کا یقین دلانا چاہتا ہوں۔حکومت پنجاب زرعی شعبے کو سائنٹیفک مرتعش اور عالمی اداروں سے منسلک شعبے میں بدلنے کے وژن پر عمل پیرا ہے جو نہ صرف غذائی ضروریات کے چیلنج کو پورا کرے بلکہ معاشی طور پر علاقائی اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہو۔حکومت پنجاب پیداواری صلاحیت اورزرعی مداخل کی کارکردگی میں اضافے کیلئے کوشا ں ہے اور حکومت کی توجہ مارکیٹ سے روابط بڑھانے پر بھی مرتکز ہے اور اس مقصد کیلئے زرعی شعبے کے ترقیاتی بجٹ میںتسلسل سے اضافہ کیا جارہاہے۔ہماری حکومت کاشتکاروں کوفنی خدمات اورمعیاری مداخل فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اسی مقصد کے حصول کیلئے وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے چھوٹے کاشتکاروں کیلئے 341 ارب روپے مالیت کے انقلابی کسان پیکج کا اعلان کیا ہے۔جس میں براہ راست معاشی معاونت اور نرم اقساط پر زرعی قرضوں کی فراہمی شامل ہے۔کسان پیکج کو پیش کرنے کا مقصد سائنسی خطوط پر ترقی پسند زراعت کا فروغ‘ حوصلہ افزائی اور فصلوں کے مداخل کی لاگت میں کمی کے ذریعے کاشتکار بھائیوںکو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
حکومت پنجاب کھیت سے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے کیلئے 150ارب روپے کی لاگت سے صوبہ بھر میں خادم پنجاب رورل روڈز پروگرام پر عملدرآمدکر رہی ہے۔ خادم پنجاب رورل روڈز پروگرام کاشتکارکو اپنی پیداوار بروقت مارکیٹوں تک پہنچانے کے قابل بنا کر دیہی معیشت میں انقلاب لائے گا۔لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم (ایل آر ایم آئی ایس) حکومت پنجاب کا انقلابی اقدام ہے۔ جس سے صوبہ بھر میں صدیوںپرانے پٹوار کلچر کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ایل آر ایم آئی ایس کے ذریعے پیچیدہ دستاویزات کی تصحیح کے بعد پانچ کروڑ پچپن لاکھ اراضی مالکان کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ اب آپ کسی بھی اراضی مرکز پر جا سکتے ہیں جہاں آپ کو پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر خدمات فراہم کی جائیں گی۔ اراضی کی فردملکیت صرف 30منٹ اور انتقال اراضی کی فراہمی کا عمل صرف 50 منٹ میں مکمل ہو گا۔
قومی معیشت میں زراعت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے کاشتکار دوست اقدامات کئے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ چند سال سے پنجاب میں اہم فصلوں سے ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ گندم کی پیداوار ایک کروڑ92 لاکھ 82ہزار ٹن‘ کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 2 لاکھ 77 ہزار گانٹھ‘ چاول کی پیداوار 36 لاکھ 48 ہزار ٹن‘ گنے کی پیداوار 4 کروڑ 10 لاکھ 74 ہزار ٹن‘ مکئی کی پیداوار 36 لاکھ 89 ہزار جبکہ آلو کی ریکارڈ 38 لاکھ 39 ہزار ٹن پیداوار حاصل ہو ئی ہے۔میں اپنے کاشتکار بھائیوں کو یہاں یہ پیغام دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی متحرک اور فعال لیڈرشپ میں حکومت ہر ممکن طریقہ سے معاونت اور سہولت فراہم کرے گی۔ کاشتکار ہماری معیشت کے فروغ میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔ ہم ملکی ترقی کیلئے کاشتکار بھائیوں کی خدمات کو جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ کاشتکاروںکی جانفشانی اور مشقت کے طفیل پوراملک اپنی غدائی ضروریات پوری کرنے کا اہل ہے۔
کاشتکار کی خوشی اور خوشحالی ہمارے قومی مقاصد کے حصول میں سرفہرست ہے۔ ہم کاشتکار بھائیوں کو درپیش مسائل کا بھی مل جل کر سامنا کریں گے۔ زرعی کانفرنس نے زراعت سے متعلق تمام متعلقین کو یکجا ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مشاورتی سیشن میں متعلقین کی آراء اور تجاویز ،زرعی شعبے میں پیداواری حکمت عملی مرتب کرنے میں معاون ہوں گی۔مجھے مصمم یقین ہے کہ متعلقین کی مشاورت اور سفارشات صوبہ میں زرعی بڑھوتری کی بنیاد رکھنے میں مددگار ہوں گی۔پنجاب ایگریکلچر کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے میں امدادی پیکج کے فوائد کا کسانوں تک پہنچنا اوران کی فلاح و بہبود کو صوبائی زرعی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہونا یقینی بنائوں گا۔