شیر خان شہید نے ثابت کیا بہادر مشکل میں گھبراتا نہیں ، فوجی عہدیداران

July 05, 2022

کراچی (نیوز ڈیسک) فوجی عہدیداروں نے کہا ہے کہ دُنیا کے بُلند ترین محاذ جنگ کارگل پر دشمن پر دھاک بٹھانے اور اُس کے مذموم عزائم ناکام بنا کر کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے یہ ثابت کر دیا کہ بہادر مشکلات میں گھبرایا نہیں کرتا۔ یہ ایسے بہادر سپوت کی داستان ہے جس نے جان تو دے دی لیکن وطن کی حُرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ نہ اپنا سر جھکایا اور نہ ہی قوم کا سر جُھکنے دیا۔ یہی وہ بہادر ہیں جن کی ہمت، جرات، وطن سے محبت اور بہادری کا بر ملا اعتراف دُشمن نے بھی کیا۔ جنہوں نے اپنے خون سے وطن کا دفاع کیا۔بھروقت قوتِ فیصلہ، بھرپور جوابی وار اور اللہ پر ایمان نے کیپٹن کرنل شیر خان کو یہ اعزاز بخشا کہ دُشمن کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ واپس لوٹنے پر بھی مجبور کر دیا۔ تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ جب جب جرأت اور دلیری کا ذکر آئے گا، کیپٹن کرنل شیر خان ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔کیپٹن کرنل شیر خان1970میں صوابی میں پیدا ہوئے۔ صوابی کے اس جوان نے 1992ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت اختیار کی۔1994میں پاک فوج کی27 سندھ رجمنٹ جو کہ ان کی بہادری کی وجہ سے شیرِ حیدری کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور 1999میں کارگل کے محاذ پر12این ایل آئی جو کہ ان کی جرات کی وجہ سے حیدران پلٹن جانی جاتی ہے، کا حصہ تھے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شروع ہی سے مہم جو اور انتہائی نڈر آفیسر تھے۔نومبر1992ء کو کرنل شیر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے حصول کیلئے پہنچے۔ ٹریننگ کے تلخ اوقات سے وہ پہلے ہی واقف تھے مگر یہاں کے شب و روز کچھ زیادہ ہی کٹھن اور حوصلہ آزما ہیں۔ کیپٹن احمد وحید (بارہ این ایل آئی) بتاتے ہیں کہ کرنل شیر نے سب جونئیر کو جمع کر کے ایک لیکچر دیا کہ میں آپ لوگوں کو صرف ایک دفعہ بلاؤں گا۔ وہ بلاوا، فجر کی نماز کے لیے ہو گا۔ لہذا نماز کے وقت سب کیڈٹ باہر جمع ہو جاتے اور کرنل شیر انہیں ساتھ لے کر مسجد کی طرف چلے جاتے۔اور ان کی شخصیت کا تاثر کچھ ایسا تھا کہ کسی لڑکے کو حکم عدولی یا بے ضابطگی کی جرأت نہ ہوتی۔ لیفٹیننٹ ظہیر اعظم، کرنل شیر سے جونئیر تھے اور ان کا تعلق93لانگ کورس سے تھا۔ اپنی یادوں کے دریچے وا کرتے اور محافظ پاکستان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ”مجھے کرنل شیر کے ہمراہ اکیڈمی اور27سندھ رجمنٹ میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ کرنل شیر کے تعلیمی نتائج بہت اچھے تھے۔ ان کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرنل شیر کو ایک اعزازی عہدہ دے دیا گیا۔ کرنل شیر کو ابتداء ہی سے ہتھیاروں سے بہت پیار تھا۔ وہ ایک ممتاز فائرر، نشانے باز بھی تھے۔ آپ پی ایم اے کی شوٹنگ ٹیم کا مستقل حصہ رہے۔ وہ سخت جان تھے اور اپنے قوت بازو پر مکمل بھروسہ تھا۔ پی ایم اے کے ہر شوٹنگ مقابلے کا حصہ رہے۔ کرنل شیر اکیڈمی سے ستائیس سندھ رجمنٹ میں راہ راست پوسٹ ہونے والے پہلے آفیسر ہیں۔یونٹ میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ لیفٹیننٹ کرنل اقبال محمود نے سیکنڈ ان کمانڈ ہونے کی حیثیت سے نئے آفیسرز کا خیر مقدم کیا۔وہ بتاتے ہیں کہ”سیکنڈ ان کمانڈ ہونے کے باعث کرنل شیر کی پیشہ ورانہ تربیت اور شخصیت پروان چڑھانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی“۔انہوں نے بتایا کہ میں نے کرنل شیر کو پیشہ ورانہ فرائض میں بہت سنجیدہ اور پر اعتماد پایا۔”پاک فوج میں شمولیت میرا سب سے بڑا خواب تھا جو آج پورا ہو گیا“۔ یہ الفاظ کرنل شیر نے مجھے پہلے انٹرویو میں بتائے اور میں نے پہلے روز ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان کوئی خاص کام کرنا چاہتا ہے۔ نائب صوبیدار قاسم ستائیس سندھ رجمنٹ میں اسی روز تعینات ہوئے جس روز کیپٹن کرنل شیر یونٹ پہنچے تھے۔ یہ ایک حسن اتفاق تھا۔ قاسم اپنی یادوں کے گوشے وا کرتے ہیں کہ ایک جونیئر سپاہی کے طور پر مجھے کرنل شیر خان جیسا رول ماڈل میسر آیا۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ میں انہیں یونٹ میں ہر وقت متحرک اور مصروف دیکھتا۔ سائیکل پر سوار یہ نوجوان افسر یونٹ کی ہر سر گرمی میں پیش پیش ہوتا تھا۔ قاسم اپنے ٹریننگ سنٹر جب کہ کرنل شیر خان پی ایم اے سے 27سندھ رجمنٹ کا حصہ بنے تھے۔ وہ قاسم کو بہت پسند کرتے تھے، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ قاسم جسمانی مشقت اور مختلف سرگرمیوں میں کرنل شیر کے ہمراہ رہتے تھے۔ اس بہادر سپوت نے جنوری1999ء میں خود کو لائن آ ف کنٹرول پر تعیناتی کے لئے پیش کیا۔ کارگل کی جنگ کے دوران 12این ایل آئی میں تعینات ہوئے۔ آپ نے پلٹون کمانڈر کے طور پر بے شمار خدمات سر انجام دیں۔کارگل جنگ کے دوران مشکل ترین چوٹیوں پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے تاریخ رقم کر دی۔ کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان نے متعدد آپریشنز کی قیادت کی۔آپ نے دُشمن کے بہت سے حملوں کو پسپا کر کے انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔5جولائی1999کو کیپٹن کرنل شیر اوراُن کے14ساتھیوں کو کاشف اور وکیل پوسٹ کے درمیان موجود مزاحمتی ناکہ بندہ کو ختم کرنے کا مشن سو نپا گیا۔ اِس دوران کیپٹن کرنل شیر خان کو دشمن کی ایک اور مزاحمتی پوزیشن اور کاشف پوسٹ کی جانب بڑے حملے کی غرض سے آگے بڑھتی دُشمن کی سپاہ کی کثیر تعداد نظر آئی۔اِن سخت کٹھن حالات کے باوجود آپ نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ دُشمن پر بھرپور حملہ کر کے اُسے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اِس جرأت مندانہ معرکے میں آپ دشمن کے سنائپر فائر کی زد میں آگئے اور5جولائی1999کو شہادت کا تمغہ اپنے سینے پر سجا یا۔پاک فوج کے اس جوان نے بھارتی فوج کو ایسا سبق سکھایا جو وہ کبھی نہیں بھلا سکے گی۔کرنل شیر خان اس چوٹی کے حصول کے لئے آخری دم تک لڑتے رہے حتیٰ کہ جامِ شہادت کے وقت بھی اُن کی اُنگلی بندوق کے ٹریگر پر تھی۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی دلیری اور بہادری کا بھرپور اعتراف کیا گیا تھا اور دُشمن کی طرف سے خط میں لکھا گیا کہ ”کیپٹن شیر خا ن نے جس طرح خود اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مقابلہ کیا اُنھیں اس بہادری پر اعلیٰ اعزاز سے نوازا جانا چاہیے“۔