پاکستانی فلم کی تاریخ گو کہ 74؍برسوں پر محیط ہے، جس میں ایک سے ایک باصلاحیت فن کار آئے، شان دار کارکردگی کے ساتھ بہترین اور متاثرکن کیریئر گزرا اور چلے گئے ، لیکن لالی وڈ کے تین سپر اسٹارز محمد علی، وحید مراد اور ندیم پاکسانی فلم بینوں کے من کو ایسے بھائے کہ ہیرو شپ میں ان ہیروز کو پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ مقبول اور پسندیدہ ہیروز ٹھہرا دیا گیا اور یہی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ ان ہیروز کی فلموں نے پاکستانی باکس آفس کو جو استحکام اور دوام بخشا، اس کی دوسری تمثیل کوئی نظر نہیں آتی، بالکل اسی طرح شعبہ اداکاری میں بھی جو فن کے بہترین اور لازوال مظاہر ان ہیروز کی وساطت سے سامنے آئے، ان کی بدولت ہمارے ناقدین نے بھارت کے بڑے بڑے منجھے ہوئے شہرت یافتہ اداکاروں سے ان فن کاروں کے موازنے کی جسارت بھی پائی۔ پاکستانی سنیما کے ان بے مثل تمثیل گروں کے اگر تمام تر فنی کارناموں پر بات کی جائے تو شاید ایک ضخیم کتاب مرتب کرنی پڑے گی۔
تاہم زیرنظر تحریر میں ہم ان مایہ ناز ستاروں کی مشترکہ 3؍فلموں پر بات کریں گے، جن کا سرسری سا ذکر ہم گزشتہ ہفتہ کے آرٹیکل میں کرچکے ہیں۔
گو کہ 1974ء سے قبل ایسا تو متعدد بار ہوا کہ محمد علی اور وحید مراد یا محمد علی اور ندیم کو یا وحید مراد اور ندیم کو اکٹھے کاسٹ کیا گیا، لیکن ایسا پہلی بار 1974ء میں ہوا کہ ہدایت کار اقبال اختر نے اپنی شان دار گھریلو فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ کے لیے ان تینوں مقبول ترین ہیروز کو یکجا کیا، حالاں کہ 70ء کی دہائی میں ڈائریکشن کے شعبے میں پرویز ملک، شباب کیرانو، ایس سلیمان اور حسن طارق، وقت کے مستند اور معتبر حوالے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ان ممتاز ہیروز کواپنی کسی فلم میں یکجا کرنے کی جسارت نہ کرسکا، اس کی ابتداء اقبال اختر نے کی۔ فلم میں محمد علی کا تھرو آئوٹ کردار تھا۔
چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا کردار پہلے ہاف تک محدود تھا، جب کہ ندیم کا کردار بھولا کے روپ میں ایک گیت کی گائیکی و پکچرائزیشن) اور محض چند مناظر پر محیط تھا، لیکن ہر کردار بڑی خُوب صورتی اور چاکبدستی سے تحریر کیا گیا تھا۔ ہر ایک فن کار سے ہدایت کار نے بڑی ذہانت و مہارت کے ساتھ کام کیا۔ فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ ایک ہنستے بستے گھرانے کی کہانی تھی، جو دو بھائیوں محمد علی، وحید مراد اور ان کی بیگمات زیبا، ساحرہ پر مشتمل تھی،جب کہ نابینا (نِشو) اور بھولا (ندیم) کے کردار بھی اسی گھرانے سے متعلق تھے۔
وحید مراد نے ایک شوخ و شنگ کھلنڈرے نوجوان کے روپ میں اپنی فلمی بھابھی زیبا کے مقابل جس عمدگی اور معیار کی پرفارمنس دی، وہ گریٹ وحید مراد ہی کا حصہ تھا، بالخصوص مشہور زمانہ گیت ’’چھیڑ چھاڑ کروں گا‘‘ کے لیےان کا گیٹ اپ اور کردار نگاری کو بھلائے نہیں بھولتی۔ گو کہ ان کا کردار پہلے ہاف تک محدود تھا، لیکن ان کی پرفارمنس کا وزن ایک فل لینتھ فلم کے کسی بھی بھرپور کردار کے متوازی رہا۔ کیا دل چسپ بات ہے کہ وہ فلم کے فرسٹ ہیرو تھے، لیکن آدھی فلم میں ان کا کردار وائنڈاپ ہوجاتا ہے، جب کہ کہانی کے مرکزی ہیرو لیجنڈری محمد علی ہی تھے، فلم کے ہر کردار کا تانابانا ان سے منسلک تھا۔
تمام حالات و واقعات اور سچویشنز میں محمد علی اور زیبا بیگم مرکزنگاہ تھے اور ان کے ساتھ ساتھ ننھا ’’پھول‘‘! پھول کی بیماری کے انکشاف کے بعد شعبہ اداکاری میں یہ فلم محمد علی اور زیبا بیگم کی دل کو گداز اور آنکھوں کو پرنم کردینے والی المیہ کردار نگاری کا بے مثال مظہر تھی اور ان ہی تمام کرداروں کے بیچ بھولا کی مختصر تمثیل نبھانے والے ندیم نے خُوب صورتی اور عمدگی سے ننھے ’’پھول‘‘ کی سال گرہ کے جشن میں خوشی اور مسرت کے جذبوں اور پھول کی موت پر اپنی المیہ پرفارمنس کو حقیقی رنگوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا۔ یہ یادگار فلم 12؍جولائی 1974ء کو ریلیز ہوئی۔
اسی سال ہدایت کار نذر شباب نے ان تینوں سرکردہ ہیروز کو اپنی سوشل ڈراما مووی ’’شمع‘‘ میں یکجا کردیا۔ ’’شمع‘‘ ایک بھولی دیہاتی لڑکی کی کہانی تھی، شمع کے بھائی بنے تھے محمد علی اور ندیم…! محمد علی کے کردار میں درگزر، بردباری اور برداشت نمایاں تھی، تو ندیم کے کردار میں جارحیت اور اینٹ کا جواب پتھر تھا اور وحید مراد بنے تھے ایک ڈاکٹر بابو، جو گائوں کی بھولی بھالی شمع کو اپنی دُلہن بنا کر تو لے جاتے ہیں، لیکن ان کی مغرب پرست ماں اور بہن شمع کو بہو اور بھابھی کے طور پر قبول نہیں کرتیں۔
یہی نہیں بلکہ وہ شمع اور اس کے بڑے بھیا عظیم (محمد علی) کو بھی بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تاہم شمع اور عظیم کا بھائی، ندیم اپنی حکمت عملی سے نہ صرف شمع کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ چکاتا ہے، بلکہ شمع کو اس کے سسرال میں اس کا جائز مقام اور حق بھی دلواتا ہے۔ ندیم نے اس جارحانہ کردار کو بڑی جرات اور محنت سے ادا کیا اور بیش تر سچویشنز میں شائقین فلم سے خوب داد پائی، جب کہ محمد علی کو ایک شریف النفس، صلح جو اور متین بھائی کے روپ میں خوب پزیرائی ملی۔
وحید مراد کا کردار فرسٹ ہاف میں رومینٹک تھا، لیکن سیکنڈ ہاف میں شمع سے بدگمان شوہر کا کردار بن کر نیگٹیو شیڈ لے لیتا ہے، جسے وحید مراد نے عمدگی سے نبھایا، جب کہ ان سپر ہیروز کے مقابل پاکستان کی مایہ ناز ہیروئنز زیبا، بابرہ شریف اور دیبا تھیں۔ محمد علی، ندیم اور وحید مراد کی تِکون پر بننے والی تینوں فلموں میں ’’شمع‘‘ کو مجموعی 65؍ہفتے اور سولو 19؍ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل ہوا، جب کہ ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ 18؍ہفتے اور مجموعی 62؍ہفتے تک زیرنمائش رہی تھی۔ ’’شمع‘‘ کی نمائش 25؍دسمبر 1974ء کو ہوئی۔ اسی تِکون کی تیسری اور قطعی آخری فلم اقبال اختر کی ’’جب جب پھول کھلے‘‘ تھی، جس میں یہ تینوں سپر ہیروز ایک دوسرے کے حقیقی بھائی بنے تھے ، جو بچپن ہی میں بچھڑ جاتے ہیں۔
مختلف ماحول اور جداگانہ حالات میں تینوں کی الگ الگ پرورش ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بڑا بھائی نعیم (محمد علی) ایک ماہر قانون دان (وکیل) منجھلا بھائی (سلیم شہزادہ) وحید مراد ایک جرائم پیشہ، اسمگلر بنا اور سب سے چھوٹا بھائی ندیم قانون کا رکھوالا، یعنی پولیس انسپکٹر بن گیا۔ پرفارمنس کے ضمن میں تینوں ہیروز میں وحید مراد کا کردار نہایت طاقت ور اور جان دار تھا، جسے وحید مراد نے بھرپور توانائی کے ساتھ ادا کیا۔ گو کہ اسی نوعیت کا کردار وہ قبل ازیں ’’دولت اور دنیا‘‘ میں دلبر ڈاکو کے روپ میں ادا کرچکے تھے، لیکن اس کردار کو ’’جب جب پھول کھلے‘‘ میں وحید مراد نے مزید پالش کیا اور اس میں زیادہ توانائی سے پرفارمنس دی۔
نغمات کی کمپوزیشن میں ان کی مہارت اور مشاقی تو تھی ہی اپنی مثال آپ، لہٰذا فلم کا گیت ’’کیا پتا زندگی کا‘‘ خوشی اور غمی دونوں ہی کیفیات میں ان کی لاجواب و بے مثل کردار نگاری کا مظہر تھی۔ دوسرے نمبر پر ندیم کی پرفارمنس بہت عمدہ اور لاجواب تھی، بالخصوص دو نغمات ’’تیرے نیناں بڑے ‘‘ اور ’’بڑھاپے میں دل نہ لگانا بڑے میاں‘‘ کی پکچرائزیشن اور اسپیشلی بوڑھے کلاسیکل استاد کے روپ میں ان کی کردار نگاری لاجواب تھی۔ گریٹ علی کے کردار میں پرفارمنس کا جتنا مارجن تھا، اس میں انہوں نے بہترین انداز میں پرفارمنس دی۔
عدالتی مناظر میں تینوں فن کاروں کی خُوب صورت پرفارمنس کا کامبینیشن مثالی تھا، لیکن وحید مراد کا ہنر سر چڑھ کر بول رہا تھا، جب کہ ان تینوں فن کاروں سے قطع نظر ممتاز کی کردار نگاری بھی بے حد خُوب صورت اور متاثرکن تھی۔ ’’جب جب پھول کھلے‘‘ اس ٹرائیکا کی دیگر دو فلموں کی طرح سپرہٹ کام یابی ہم کنار ہوئی۔
اس کے سولو ہفتے 19؍تھے اور مجموعی ہفتے 59؍تھے۔ کیا خوب اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا تینوں فلموں میں ان تین سپر ہیروز کے علاوہ فلم کی کاسٹ میں زیبا بیگم، موسیقار ایم اشرف بھی مشترک تھے اور تینوں ہی فلموں نے کام یابی کا مستند سنگ میل گولڈن جوبلی عبور کیا۔ ’’جب جب پھول کھلے‘‘ کی نمائش 21؍نومبر 1975ء کو ہوئی تھی۔