• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سحرش نعیم

میری بیوی نے چند دن قبل گھر کی چھت پر کچھ گملے رکھ کر ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا۔ گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ پوری چھت پر پودے ہی پودے ہیں۔ بہت سےگملوں میں پھول کھلے ہیں، نیبو کے پودے میں نیبو اور ہری مرچوں کے پودے میں دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی ہیں۔ بیگم نے بانس کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، وہ اسے گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی۔ 

میں نے کہا تم اس گملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟ بیوی نے جواباً کہا کہ، یہاں یہ بانس کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس پودے کے پاس کر رہی ہوں۔میں ہنسا اور کہا، ارے پودا سوکھ رہا ہے تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو۔ اسےکھسکا کر کسی دوسرے پودے کے پاس کر نے سے کیا ہو گا؟ بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا، یہ پودا یہاں اکیلا ہے، اس لئے مرجھا رہا ہے۔ 

اسے دوسرے پودے کے پاس کروں گی تو یہ پھر لہلہا اٹھے گا۔ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں، انہیں اگر کسی اور پودے کے ساتھ رکھ دیاجائے تو جی اٹھتے ہیں ۔ میرے لیے یہ بہت عجیب سی بات تھی۔ ایک ایک کر کے کئی فوٹو آنکھوں کے آگےآنے لگے۔ اسی لمحے والد صاحب کا خیال آیا جو ماں کی موت کے بعد بہت بوڑھے ہوگئے تھے۔ اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال تک زندہ رہے، لیکن سوکھے ہوئے پودے کی طرح۔

ماں کے ہوتے ہوئے کبھی میں نے اُنہیں اداس نہیں دیکھا تھا، لیکن ماں کے جانے کے بعد بہت خاموش ہو گئے تھے۔ مجھے بیوی کی بات پر یقین سا آگیا۔ لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے۔ اچانک مجھے یاد آیا، بچپن میں ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کےجار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا۔ مچھلی سارا دن گم سم رہی۔

میں نے اس کے لئے کھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر، ادھر پانی میں گھومتی رہی۔ سارا کھانا جار کی تلہٹی میں جا کر بیٹھ گیا، لیکن مچھلی نے کچھ نہیں کھایا۔ دو دن تک وہ ایسے ہی رہی اور ایک صبح وہ پانی کی سطح پرالٹی پڑی تھی۔ آج مجھے وہ چھوٹی مچھلی یاد آرہی تھی۔ بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگر معلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا بہت ساری مچھلیاں خرید لاتا اور میری پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر تی۔

مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں کسی کو تنہائی پسند نہیں۔ آدمی ہو یا پودا، ہر ایک کو کسی نہ کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد جھانکیں، نظریں دوڑایں ، اگر کہیں کوئی اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسےجیتے جی مرنے سے بچالیں۔ تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے۔ گملے کے پودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن انسان کو قریب لانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے ،رشتوں کو سمجھنے کی۔ اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگےکہ زندگی مرجھا رہی ہے تو رشتوں کی محبت نچھاور کریں۔ تنہائی سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کی بھی تنہائی ختم کریں۔